زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان (ردیف .. ا)
زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشت سر خم کیا
تشریح
اس شعر میں بھی میر کا مخصوص وقار جھلکتا ہے۔ ’’جرعہ کش‘‘ کے لغوی ہیں ’’گھونٹ گھونٹ یا بوند بوند پینے والا‘‘۔ زمانہ اس کو خاک کر دیتا ہے، لیکن پھر بھی اس کے اندر شراب نوشی کا ولولہ اس قدر ہے کہ اس کی مٹی سے وہ اینٹ بنتی ہے جو شراب کے مٹکے کو ڈھکنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ’’خاک‘‘، ’’خشت‘‘ اور ’’خم‘‘ کی تجنیس بھی توجہ انگیز ہے۔ خاک ہونے پر کوئی غم نہیں ہے، بلکہ ایک طرح کی ہٹ دھرمی سے بھرا ہوا غرور ہے۔ شعر میں ایک طنزیہ پہلو بھی ہے کہ جب تک میں زندہ رہا، صرف بوند بوند شراب ملتی رہی، لیکن جب میں خاک ہو گیا تو مجھے خم کے سر پر بٹھا دیا۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ خشت خم چونکہ ڈھکنے کا کام کرتی ہے، اس لئے شراب سے مجھے اتنی محبت ہے کہ مرنے کے بعد بھی خم کو ڈھانک رہا ہوں، تاکہ شراب ضائع نہ ہو۔ شعر کا انداز بظاہر محزونی کا ہے، لیکن شاعر کا غرور پس پردہ جھانک رہا ہے۔ خیام نے اس شعر کا مضمون اکثر بیان کیا ہے، لیکن خیام کے یہاں نمایاں پہلو ہمیشہ یہ ہے کہ انسان کو مرجانا اور گل سڑ کر خاک ہونا ہے۔ اس کا انداز رنجیدہ، نصیحت آمیز اور ڈرامائی ہے۔ لہجہ پروقار ہے، لیکن خود اپنے آپ پر، یا زمانے پر طنز نہیں ہے، بلکہ انسان کی تقدیر پر خاموش ماتم ہے۔ اور حق یہ ہے کہ میر نے اس مضمون کو (یعنی مر کر خاک ہو جانا اور پھر شراب نوشی میں کام آنے والی کوئی چیز بن جانا) خیام سے بہتر نہیں ادا کیا ہے۔ لیکن میر جس چیز میں خیام پر سبقت لے گئے ہیں وہ ان کا طنزیہ انداز اور تہ داری ہے۔ خیام کے یہاں نصیحت آموزی زیادہ ہے، اگر اس کا انداز ڈرامائی نہ ہوتا تو نصیحت آموزی کی شدت کی بنا پر اس کا شعر ناکام ٹھہرتا۔
برسنگ زدم دوش سیوے کاشی
سرمست بدم کہ کردم ایں اوباشی
بامن بزبان حال می گفت سبو
من چوں تو بدم تو نیز چوں من باشی
(کل میں نے چینی مٹی کا بنا ہوا (کاشی) پیالہ پتھر پر پٹک دیا۔ یہ اوباشی مجھ سے اس لئے ہوئی کہ میں نشے میں چور تھا۔ پیالے نے مجھ سے زبان حال سے کہا کہ میں تیری طرح تھا، تو بھی (کسی دن) میری طرح ہوگا۔)
خیام کا مضمون میر کے مقابلے میں کچھ وسیع ضرور ہے، اور اس میں المیہ آموزی بھی خوب ہے۔ لیکن چند درچند پہلوؤں کی بنا پر میر کا شعر بھی خیام سے کم نہیں ہے۔ سید محمد خاں رند شاگردِ آتش نے میر کے مضمون اور پیکر کو اپنے طور پر بیان کیا ہے، لیکن وہ بات نہیں آئی۔
مے کش وہ ہیں کہ خاک بھی کردے گر آسماں
کاشہ ہماری خاک کا جام شراب ہو
شمس الرحمن فاروقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.