aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
‘’اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔‘‘
(عقیل احمد صدیقی)
اقبال اک عہد شناس اور عہد ساز شاعر تھے۔ ان کی شاعری اک مخصوص نظام فکر سے روشنی حاصل کرتی ہے، جو انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد مرتب کیا تھا اور محسوس کیا تھا کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا جو زوال دونوں جگہ مختلف انداز میں انسانیت کو جکڑے ہوئے ہے اس کا حل ضروری ہے۔ خصوصاً مشرق کی بدحالی ان کو مضطرب رکھتی تھی اور وہ اس کے اسباب سے بھی واقف تھے لہٰذا انھوں نے انسانی زندگی کو سدھارنے اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا۔ اقبال عظمت آدم کے علمبردار تھے۔ اور وہ کسی بخشی ہوئی جنت کی بجائے اپنے خون جگر سے خود اپنی جنت بنانے کے عمل کو زیادہ امکان پرور اور زیادہ حیات آفریں سمجھے تھے۔ اس کے لئے اس کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’’اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہئے کہ زندگی اپنی حویلی میں کسی قسم کا انقلاب نہیں پیدا کر سکتی جب تک اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ پیدا ہو اور کوئی نئی دنیا اک خارجی وجود نہیں حاصل کر سکتی، جب تک اس کا وجود انسانوں کے ضمیر میں متشکّل نہ ہو۔‘‘ وہ مغرب کو روحانی طور پر بیمار تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی اصلاح اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس کی عقل ہوا و ہوس کی غلامی سے نجات حاصل کرکے ’’ادب خوردۂ دل‘‘ نہ ہو جائے۔ اور اس کے لئے سوز عشق ضروری ہے۔ اقبال کا عشق اردو شاعری اور تصوف کے روایتی عشق سے مختلف ہے۔ وہ ایسے عشق کے قائل تھے جو آرزوؤں میں وسعت پیدا کر کے حیات و کائنات کو مسخر کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ عشق کو عمل سے استحکام ملتا ہے جبکہ عمل کے لئے یقین کا ہونا ضروری ہے اور یقین علم سے نہیں عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ عشق، علم اورعقل کو لازم و ملزوم اور ایک کے بغیر دوسرے کو ادھورا سمجھتے تھے۔ عشق کے علاوہ اقبال کی دوسری اہم شعری اصطلاح ’’خودی‘‘ ہے۔ خودی سے اقبال کی مراد وہ اعلیٰ ترین انسانی صفات ہیں جن کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کے بلند درجہ پر فائز کیا گیا ہے۔ اس خودی کو پیدا کرنے کے لئے جذبۂ عشق ضروری ہے کیونکہ عشق ہی خودی کی تکمیل کرتا ہے اور دونوں اک دوسرے سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک عشق اورعلم کی آمیزش سے فرد کی اصلاح اور معاشرہ کی تعمیر کا کام مکمل ہوتا ہے۔
اقبال کی شاعری بنیادی طور پر حرکت و عمل اور مسلسل جدوجہد کا مطابہ کرتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے یہاں بعض اوقات یہ جد وجہد حصول مقصد کے وسیلہ کی بجائے خود مقصد بنتی نظر آتی ہے۔ ’’جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر، وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں۔‘‘ اقبال نے اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار جس فنکاری اور شعری رچاؤ کے ساتھ کیا وہ اک ایسا کارنامہ ہے جو اپنی نظیر آپ ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، فلسفی، مصلح قوم، سیاستداں اورعالم تھے لیکن ان کی شاعرانہ شخصیت نے ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔ اپنی فکر کے اظہار کے لئے اقبال نے اردو کی شعری لسانیات میں زبردست اضافہ کیا۔ وہ نظم کے ہی نہیں غزل کے بھی بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے ایک طرف نظم کو اک نیا قرینہ عطا کیا تو دوسری طرف غزل بھی ان کے یہاں اک نئے اور تازہ اسلوب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اقبال کے شعری مضامین ان کے غنائی آہنگ پر کبھی غالب نہیں آئے۔ ان کی نظموں میں زبردست نغمگی اور والہانہ پن ہے۔ اقبال کی روایت میں ایسی قوّت ہے جس کی تازگی میں امکانات کی اک دنیا آباد ہے۔
شیخ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد سپرو گوت کے کشمیری برہمن تھے لیکن اسلام قبول کر کے سیالکوٹ میں بس گئے تھے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد زیادہ پڑھے لکھے یا خوشحال نہیں تھے لیکن دیندار تھے اورعلماء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ شمس العلماء میر حسن سیالکوٹی ان کو ’’ان پڑھ فلسفی‘‘ کہتے تھے۔ اقبال کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئ۔ پرائمری، مڈل اور میٹرک کے امتحانوں میں امتیازی نمبروں سے پاس ہو کر وظیفہ لیا۔ ایف اے اسکاچ اسکول سیالکوٹ سے پاس کرکے بی اے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ یہیں ان کی ملاقات عربی کے اسکالر ٹی۔ ڈبلیو آرنلڈ سے ہوئی۔ اقبال نے 1899ء میں فلسفہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اسی کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1905ء میں وہ مزید تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج میں داخلہ لیا۔ اقبال کی پہلی شادی طالب علمی کے زمانہ میں ہی اک معزز خاندان کی خاتون سے ہو گئی تھی جن سے ان کا ایک بیٹا آفتاب اقبال تھا۔
معروف خاتون عطیہ فیضی سے بھی اقبال کی دوستی رہی جو خود بھی تعلیم کی غرض سے لندن میں مقیم تھیں اور جنھوں نے دانشورانہ ادبی و علمی مذاق رکھنے والی اک ماڈرن ہندوستانی خاتون کی حیثیت سے اعلیٰ سماجی حلقوں میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ مزاجوں میں مطابقت کی وجہ سے دونوں میں قربت پیدا ہوئی۔ لندن سے واپسی کے بعد بھی دونوں میں خط و کتابت جاری رہی۔ اردو شاعری پر بہرحال عطیہ کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے اقبال کو ریاست حیدرآباد کی ملازمت سے شدّومد کے ساتھ روکا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ دربار داری اقبال کی بے پناہ خلاقانہ صلاحیتوں کے لئے سم قاتل ثابت ہو گی۔
اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے ’’موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے، قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے‘‘ پڑھ کے محض 17 سال کی عمر میں اس وقت کے جیّد شعراء کو چونکا دیا۔ اس کے بعد اقبال انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ 1900ء میں انجمن کے ایک جلسے میں انھوں نے اپنی مشہور نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھی جو اپنے اچھوتے انداز اور کمال سوزوگداز کی وجہ سے اتنی مقبول ہوئی کہ اجلاس میں یتیموں کی امداد کے لئے روپیوں کی بارش ہونے لگی اور آنسوؤں کے دریا بہہ گئے اور نظم کی ایک ایک مطبوعہ کاپی چار روپے میں فروخت ہوئی۔ اس کے بعد اقبال کی نظمیں انجمن کے جلسوں کی زینت بن گئیں۔ یکم اپریل 1904ء میں ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کا اجراء ہوا تو اس میں اقبال کی نظم ’’ہمالہ‘‘ شائع ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نئے انداز کی نظموں اور غزلوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اور اقبال شعرائے ہند کی صف اوّل میں ممتاز مقام پر فائز ہو گئے۔
اقبال نے کیمبرج اور میونخ یونیورسٹیوں سے فلسفہ میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں۔ پی ایچ ڈی کے لئے ان کے مقالہ کا موضوع: ’’ایران میں ما بعد الطبیعات کا ارتقاء‘‘ تھا۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کے حصول کے بعد انھوں نے لندن سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔ وطن واپس آ کر وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر کئے گئے اور ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے رہے جس کی کالج نے انھیں خصوصی اجازت دے دی تھی۔ بعد میں انھوں نے کالج کی ملازمت چھوڑ دی اور وکالت کو ہی اپنا پیشہ بنا لیا۔ کچھ عرصہ تک ان کی شاعری خاموش رہی لیکن پھر ان کی قومی و ملّی نظموں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو ان کی شہرت دوام کا باعث بنا۔ ان میں ’’شکوہ‘‘، ’’شمع و شاعر‘‘، ’’خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ انجمن کے جلسوں میں پڑھی گئیں۔ 1910ء میں فارسی مثنوی’’اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی اور پھر تین سال بعد ’’رموز بیخودی‘‘ منظر عام پر آئی جو ’’اسرار خودی‘‘ کا تتمّہ تھی۔ اس کے بعد اقبال کی شاعری کے مجموعے یکے بعد دیگرے شائع ہوتے رہے۔ آخری مجموعہ ’’ارمغان حجاز‘‘ ان کی زندگی میں تیار تھا لیکن موت کے بعد شائع ہوا۔ عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے اقبال 1926ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1930 میں مسلم لیگ کے الہ آباد اجلاس میں ان کو صدر چنا گیا۔ 1935ء میں پنجاب یونیورسٹی نے اور اگلے سال علی گڑھ یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔
1935ء میں عید کے دن سویّاں کھانے کے بعد ان کا گلا بیٹھ گیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے حلق میں رسولی پیدا ہوگئی تھی۔ بجلی کے علاج سے کچھ افاقہ ہوا لیکن آواز پوری طرح بحال نہیں ہوئی۔ وکالت کا کام بند ہو گیا ایسے میں ریاست بھوپال نے داد رسی کی اور 500 روپے ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ ان کی دوسری بیگم کا انتقال 1935 میں ہو گیا تھا، جو دو کمسن بچّے چھوڑ گئی تھیں۔ ان کی تربیت کی پریشانی نے اقبال کی صحت اور زیادہ بگاڑ دی۔ ان کو دمہ کے دورے پڑنے لگے۔ کھانستے کھانستے بیہوش ہو جاتے تھے۔ دسمبر 1937ء میں مرض نے شدّت اختیار کر لی اور 21 اپریل 1938ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوام مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لئے وہ عشق،عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے یہاں دل کے ساتھ دماغ کی کارفرمائی نمایاں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا کلام محض فلسفیانہ اور حکیمانہ ہے اور اس میں شعریت کی کوئی کمی ہے۔ ان کے مفکرانہ کلام میں بھی سوز اور جذبہ کا گہرا گداز شامل ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں اردو کے کلاسکی سرمایہ سے استفادہ کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اردو شاعری کو نئی نئی اصطلاحات، تشبیہوں اور رموز و علائم کا اک خوبصورت ذخیرہ بھی عطا کیا۔ انھوں نے زبان کو حسب ضرورت برتا، کہیں روایت کا اتباع کیا تو کہیں اس سے انحراف۔ بقول رشید احمد صدیقی اقبال کی نظموں کا شباب ان کی غزلوں کی شراب میں ڈوبا ہوا ہے۔ اقبال نے اردو شاعری سے حزن و قنوطیت کے عناصر ختم کر کے اس میں رجائیت، جوش اور نشاط آفرینی پیدا کی۔ اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں۔ اسی لئے ان کے فلسفہ میں کشش اور جاذبیت ہے۔ اقبال نے اپنے عہد اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی کے ساتھ ادا کر سکے۔ ان کے بعد شروع ہونے والی ادبی تحریکیں کسی نہ کسی عنوان سے ان کے سحر میں گرفتار رہی ہیں۔ اردو کے تین عظیم شاعروں میں میرؔ کی شاعری اپنے قاری کو ان کا معتقد بناتی ہے، غالبؔ کی شاعری مرعوب و مسحور کرتی ہے اور اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets