aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تاریخ اُرد و زبان و ادب کے گلستان میں کچھ شگفتہ اور سدابہار شخصیات ایسی ہیں جن پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ تروتازہ رہتی ہیں اور اپنی خوشبوئے تازہ سے فضا ئے اُردو کو ہمیشہ معطر ومعنبربنائے رکھتی ہیں ۔ ایسی ہی نادر الوجود اور عظیم شخصیات میں سے ایک دُرّ نایاب حافظ محمود خاں شیرانی کی شخصیت ہے جنھیں اُردو مدرسۃ التحقیق کا معلم اوّل تسلیم کیا جاتا ہے۔ شیرانی کی ادبی تحقیق و تدوین کا رتبہ دنیائے ادب میں نہایت بلند ہے۔ انہوں نے بہت سے غلط نظریات اور مسخ شدہ تاریخی حقائق کی درستگی کا فریضہ کمال ذمہ داری سے انجام دیا ہے۔ شیرانی صاحب نے تحقیقات کی ایک ایسی روایت قائم کی جس کی بنیاد نئے ماخذ کی دریافت پر ہے۔ چنانچہ انہوں نے سینکڑوں نئے ماخذ کی روشنی میں نئے نتائج نکالے ہیں۔ انہوں کئی کتابوں کے علاوہ پچاسوں تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔ جن میں حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔ ان کے پوتے مظہر محمود شیرانی نے ۱۹۸۷ میں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں اپنے دادا کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز حافظ محمود شیرانی کے مقالات کو تلاش کر کے دس جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ زیر نظر انہیں مقالات کی چوتھی جلد ہے جس میں فردوسی سے متعلق مضامین شامل ہیں۔
حافظ محمود شیرانی کا اردو کے نامور محققوں میں شمار ہے۔ تحقیق سے ان کی طبیعت کو فطری مناسبت تھی۔ ان کا وطن پنجاب ہے۔ وہیں ان کا قیام رہا۔
شیرانی نے اردو کی پیدائش کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اردو پنجاب سے نکلی۔ انہوں نے مثالوں سے ثابت کیا کہ اردو اور پنجابی میں بہت یکسانیت ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اردو کے مولد پنجاب ہے۔ ان کی کتاب کا نام ہے ’’پنجاب میں اردو‘‘ ان کی ایک اہم تحقیقی کتاب پرتھوی راج راسو پر ہے۔ قدرت اللہ قاسم کے تذکرے ’’مجموعۂ نغز‘‘ کا واحد نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور میں محفوظ تھا۔ انہوں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی کے ساتھ اسے ترتیب دے کر شائع کیا۔
شیرانی عربی، فارسی کے بڑے عالم تھے اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ چنانچہ وہ محققین و مصنفین کی غلطیوں پر بہت آسانی سے انگلی رکھ دیتے تھے۔ مولانا آزاد، علامہ شبلیؔ وغیرہ کی غلطیوں کی انہوں نے خاص طور پر گرفت کی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets