Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

’’اردو ادب کی دیو پیکر ہستیوں میں شبلی ہی وہ خود دار ہستی ہے، جس نے مغربی علوم و فنون کی تیز و تند آندھی میں بھی مشرقی علوم و فنون کے دیئے کو نہ صرف بجھنے نہیں دیا بلکہ اپنی تلاش و جستجو،تحقیق و تدقیق کے روغن سے اس کی لَو کو بڑھاتی رہی یہاں  تک کہ ’’چراغ خانہ‘‘ ’’شمع انجمن‘‘ کے دوش بدوش کھڑا ہونے کے لائق ہو گیا۔‘‘         
                                                                       آفتاب احمد صدیقی

شبلی نعمانی ان لوگوں میں ہیں، جو سرسیّد احمد خاں  کے اثر اور فیضِ صحبت  کی بدولت مولویت کے محدود اور تنگ دائرہ سے نکل کر ادب کے وسیع میدان میں آئے۔ انھوں نے اردو زبان میں اسلامی تاریخ کا صحیح ذوق پھیلایا۔ تاریخ میں انھوں نے اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیتوں کے حالات زندگی قلم بند کرنے کا اک سلسلہ شروع کیا، جس میں متعدد نامور اسلاف آگئے۔ ان کی سب سے مشہور و مقبول کتاب  خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی سوانح ’’الفاروق‘‘ ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی آخری تصنیف ’’سیرت النبی‘‘ ان کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکی تھی۔ اسے ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے مکمل کر کے شائع کرایا۔ ان تصانیف کے علاوہ شبلی نے بے شمار تاریخی و تحقیقی مضامین لکھے، جس سے تاریخ دانی اورتاریخ نویسی کا عام شوق پیدا ہوا۔ شبلی شاعر اوراعلیٰ درجہ کے سخن شناس و نقّاد تھے۔ اور انھیں اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران شبلی نے پروفیسر آرنلڈ سے بھی فیض حاصل کیا اور ان کے توسط سے مغربی تہذیب اور اس کے معاشرتی آداب سے  واقف ہوئے۔ شبلی نے اس تہذیب  و معاشرت کے محاسن کا اعتراف کیا اور مشرقی تہذیب کے ساتھ اس کی آمیزش بھی کی۔ اس آمیزش نے قدامت پسندوں کو ان سے بدظن کر دیا حتی کہ انھیں ندوہ سے بھی نکلنا پڑا۔ وہ مغرب زدہ حلقوں میں بغیر کسی احساس کمتری کے شریک ہوتے تھے۔ 

شبلی نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی لیکن  دونوں زبانوں کی شاعری کا مزاج مختلف ہے۔ شبلی کی فارسی شاعری میں گرما گرم عشقیہ مضامین ہیں۔ یہ شاعری عوام کی نظر سے کم ہی گزرتی ہے ۔ اردو میں انھوں نے عموماً قومی اور سیاسی قسم کی شاعری کی۔ ان کی فارسی شاعری کے بارے میں حالی نے کہا، ’’کوئی کیوں کر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے، جس نے سیرت  نعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم  جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں، غزلیں کاہے کو ہیں، شراب دو آتشہ ہے، جس کے نشہ میں خمار چشم ساقی بھی ملا ہوا ہے۔ غزلیات حافظ کا جو حصہ رندی اور بے باکی کے مضامین پر مشتمل ہے، ممکن ہے  کہ اس کے الفاظ میں زیادہ دلربائی ہو مگر خیالات کے لحاظ سے یہ غزلیں بہت زیادہ گرم ہیں۔‘‘ 

شبلی 1857ء میں اعظم گڑھ کے نزدیک بندول میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ نسلاً راجپوت تھے۔ شبلی امام ابو حنیفہ سے مزاجی قربت رکھتے تھے، اسی لئے  انھوں نے اپنے نام  کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے نعمانی لکھنا شروع کیا۔ ان کے والد اعظم گڑھ کے نامور وکیل، بڑے زمینداراور نیل و شکر کے تاجر تھے۔ شبلی کو انھوں نے دینی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علماء سے فارسی عربی حدیث فقہ اور دیگر اسلامی علوم حاصل کئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا  نے کچھ دنوں قرق امین کے طور پر ملازمت کی پھر وکالت کا امتحان دیا، جس میں فیل ہو گئے، لیکن اگلے سال کامیاب ہوئے۔ کچھ دنوں مختلف مقامات پر ناکام وکالت کرنے کے بعد مولانا کوعلی گڑھ میں سر سید کے کالج میں عربی اور فارسی کے معلم  کی نوکری مل گئی۔ یہیں سے شبلی کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا۔ علی گڑھ کی ملازمت کے دوران ہی مولانا نے ترکی شام اور مصر کا سفر کیا ۔ ترکی میں سر سید کے رفیق اور عربی و فارسی کے اسکالر کے طور پر ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ عطیہ فیضی کے والد حسن آفندی کی سفارش پر، کہ وہ سلطان عبد الحمید کے دربار میں خاصا رسوخ رکھتے تھے، ان کو ’’تمغۂ مجیدیہ‘‘ سے نوازا گیا۔ واپسی پر انھوں نے المامون اور سیرت نعمان لکھیں۔ 1890ء میں شبلی نے ایک بار پھر ترکی، لبنان اور فلسطین کا دورہ کیا اور وہاں کے کتب خانے دیکھے۔ اس سفر سے واپسی پر انھوں نے ’’الفاروق‘‘ لکھی۔ 1898ء میں سر سید کے انتقال کے بعد شبلی نے علی گڑھ چھوڑ دیا۔ اور اعظم گڑھ واپس آ کر اپنے قائم کردہ ’’نیشنل اسکول‘‘ (جو اب شبلی کالج ہے) کی ترقی میں مصروف ہو گئے۔ پھر وہ حیدراباد چلے گئے، جہاں کے اپنے چار سالہ قیام میں انھوں نے  الغزالی، علم الکلام، الکلام، سوانح عمری مولانا روم، اور موازنۂ انیس و دبیر لکھیں۔ اس کے بعد وہ لکھنؤ آ گئے جہاں انھوں نے  ندوۃ العلماء  کے تعلیمی معاملات سنبھالے۔ ندوہ کی مصروفیا ت کے درمیان ہی انھوں نے شعرالعجم لکھی۔1907 میں گھر میں بھری بندوق اچانک چل جانے سے وہ اپنا اک پیر گنوا بیٹھے اور لکڑی کے پیر کے ساتھ باقی زندگی گزاری۔ مولانا نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی۔ پہلی بیوی کا 1895 میں انتقال ہو گیا۔ 1900ء میں  43 سال کی عمر میں انھوں نے ایک کمسن لڑکی سے دوسری شادی کی، جس کا  1905ء میں انتقال ہو گیا۔ شبلی کا خواب تھا کہ بڑے بڑے علماء کو جمع کر کے علمی تحقیق و اشاعت کا اک ادارہ ’’دار المصنفین‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے۔ انھوں نے اس کا انتظام پورا کر لیا تھا، لیکن ادارہ کا افتتاح ان کی موت کے بعد ہی ہو سکا۔ مولانا کی بعض سرگرمیوں کی وجہ سے ندوۃ میں ان کی مخالفت بڑھ گئی تھی۔ آخر ان کو اس ادارے سے، جس  کی ترقی کے لئے انھوں نے بڑی محنت کی تھی، الگ ہونا پڑا اور وہ اعظم گڑھ آ کراسکول اور زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ یہاں آ کر ان کی صحت گرنے لگی اور 18 نومبر 1914ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ شبلی نعمانی اک  فعّال اور محنتی آدمی تھے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے پوری محنت اور لگن سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ اپنی علمیت و شہرت کی بدولت ان کی رسائی اس وقت کی بہت سی ریاستوں کے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں تک  تھی، جن سے ان کو اپنے علمی وعملی منصوبوں کے لئے مدد ملتی رہتی تھی۔

شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تنقیدی نظریات کو اپنی دولاجواب کتابوں’’شعرالعجم‘‘ اور’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ میں جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ موازنہ میں شبلی نے فن مرثیہ نگاری کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ساتھ  فصاحت، بلاغت، تشبیہ، استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح کی ہے ۔ شعر العجم میں انھوں نے شعر کی حقیقت و ماہیت، نیز لفظ و معنی کے رشتے کو سمجنے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں انھوں نے اردو کی جملہ کلاسیکی اصناف کا محاکمہ کیا ہے۔ اس میں انھوں نے شاعری کے عناصر حقیقی، تاریخ  و شعر کے فرق اور شاعری اور واقعہ نگاری کے فرق کو واضح کیا ہے۔ وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی چیز سمجھتے تھے جس کی کوئی جامع و مانع تعریف وضع کرنا ممکن نہیں۔ وہ ادراک کے مقابلہ میں جذبہ و احساس کو شاعری کا جوہر حقیقی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جذبات کے بغیر شاعری ممکن نہیں،  تاہم اس کا مطلب ہیجان یا ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔  وہ ہراس چیز کو جو دل پر استعجاب، جوش یا کوئی اور جذبہ پیدا کرے شعر میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے نزدیک آسمان، ستارے، صبح کی ہوا، کلیوں کی مسکان، بلبل کے نغمے، دشت کی ویرانی اور چمن کی شادابی سب شعر میں شامل ہیں۔ اس طرح شبلی نے شعر کے حسّی اور جمالیاتی پہلو پر زور دیا۔ لفظ و معنی کی بحث میں ان کا جھکاؤ لفظ کی خوبصورتی اور اس کے مناسب استعمال کی طرف ہے۔ وہ لفظ کو جسم اور معنی کو اس کی روح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عمدہ معنی عمدہ الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آئیں و زیادہ پُراثر ہوں گے۔ شبلی نعمانی کی علمی خدمات کے اعتراف میں انگریز سرکار نے ان کو شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ ان کے قائم کردہ ادارے شبلی کالج اور دار المصنفین آج بھی علم و تحقیق کے کاموں میں مصروف ہیں۔اردو زبان شبلی کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

.....مزید پڑھئے

علامہ سید سلیمان ندوی نومبر 1884ءمیں موضع دیسنہ ضلع عظیم آباد میں پیدا ہوئے۔یہ بڑا مرد م خیز خطہ ہے۔ اس چھوٹے سے گاو¿ں نے جتنے گریجویٹ پیدا کیے اتنے پاک وہند کے کسی اور گاو¿ں نے پیدا نہ کیے ہوں گے۔اسی طرح اس نے عربی کے بھی متعدد منتہی پیدا کیے ۔ انہی میں سید سلیمان ندوی کا شما ر ہو تا ہے۔ان کے والد ماجد کا نام ابوالحسن تھا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ابتدائی تعلیم قصبہ پھلواری بھنگہ میں حاصل کی ۔ اس کے بعد دارالعلوم ندوةالعلماءلکھنو میں تعلیم حاصل کی۔ اسی زمانے میںعلامہ شبلی نعمانی نے مولانا ندوی صاحب کو اپنے حلقہ تلمند میں شامل کر لیا۔ سید صاحب جب فارغ التحصیل ہو ئے تو اسی ادارے سے وابستہ ہو گئے لیکن وہ بہتر ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد جانا چاہتے تھے۔علامہ شبلی نعمانی نے کو ششیںبھی کیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں سید صاحب 1908ءمیں حیدرآباد بھی گئے تھے لیکن قدرت کو ان سے کچھ اور ہی کام لینا تھا۔سید سلیمان ندوی صاحب عربی زبان پر بھی بڑی قدرت رکھتے تھے۔دارلعلوم ندوہ کے سالانہ اجلاس میں سید صاحب نے پہلی دفعہ عربی میںبرجستہ تقریر کی جسے سن کر علامہ شبلی اس قدر خوش ہو ئے کہ انہوں نے جلسہ میں اپنا عمامہ اتارکران کے سرپر رکھ دیا ۔ سید صاحب نے کچھ عر صہ دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں جبکہ کچھ عرصہ تک ”الہلال“میں مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد وہ دکن کا لج پو نا میں دوسال تک فا رسی کے اسسٹنٹ پر وفیسر رہے۔مارچ 1911ءمیں سید صاحب کو پھر حیدرآباد جانے کا موقع ملا۔ علامہ شبلی کے دوران قیام عماد الملک نے ان کے ندوةاالعلماءکے کام سے متاثر ہو کر اپنا بیش قیمت کتب خانہ ندوہ کو دے دیا تھا۔چناں چہ اس کتب خانے کو حیدرآّباد سے لانے کیلئے مولانا شبلی نعمانی نے سید صاحب کاانتخاب کیا ۔1941ءمیں جب علامہ شبلی نعمانی کا انتقال ہوا تو سید صاحب دکن کا لج پو نا میں لیکچر ار تھے۔علامہ صاحب نے ان کو وصیت کی تھی کہ سب کام چھوڑ کر سیرةالنبیﷺکی تکمیل اور اشاعت کا فرض اداکریں۔چنانچہ سید صاحب نے ملازمت ترک کردی ۔ ان کے پیش نظر دواہم منصوبوںکی تکمیل تھی۔ ایک سیرة النبیﷺکی تصنیف و تالیف اور دوسرادار لمنصنفین کے نو خیز پو دے کو بار آور کر نا ۔ انہوںنے ہر جانب سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو ان مقاصد کے لئے وقف کر دیا۔بالآخر بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے اپنے استاد کی نامکمل کتاب کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا اس کی وجہ سے علمی دنیا میں ان کا نام دوردور تک مشہور ہو گیا سیرت کی چھ جلدوں میںابتدائی پو نے دو جلدیں انکے استاد شبلی نعمانی کی ہیںجبکہ بقیہ سواچار کتابیں انہوںنے خود مرتب کیں سید صاحب کی علمی فضیلت کے حوالے سے جناب ضیاءالدین برنی اپنی کتاب ”عظمت رفتہ “میں لکھتے ہیں کہ1920ءمیں جب وفد خلافت انگلستان بھیجنے کی تجویز سامنے آئی تو سلیمان ندوی کو ان کی غیر معمولی علمی فضیلت کی وجہ سے علمائے ہند کی جانب سے وفد سے میں شامل کیا گیا۔وہاں انہوںنے ممتاز مستشر قین سے ملاقاتیں کیںاور انہیں اپنا ہم خیا ل بنایا انہوں نے جنگ آزادی میں بھی بھر پور حصہ لیا 1917ءمیں اجلاس علمائے بنگال منعقدہ کلکتہ کی صدار ت فرمائی اور حکومت کے جبر وتشدد کے باوجود جرات آموز خطبہ عطا کیا کہ لوگوں کے ذہن سے انگریز کی مرعوبیت اٹھ گئی علامہ شبلی نعمانی کی طرح علامہ سید سلیمان ندوی کوبھی تاریخ اور ادب سے خاص لگاو¿تھا۔انہوں نے سیرت ، سوانح ، مذہب زبان وادب کے مسائل پر تحقیقی کام کیا اور ماہنا مہ معارف جاری کیا اور اس کے ذریعے دین وادب کی ٹھوس خدمت کی 1950ءمیں ندوی صاحب پاکستان آگئے اور کراچی میں آباد ہوئے یہاں انہوں نے پاکستان اور ملت اسلامیہ کی جو خدمات انجا م دیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ندوی صاحب ایک بلند پایہ عالم مورخ ، مصنف او ر مدبرتھے۔ ان کی تصانیف میں سیرت النبی حصہ سوم تا ششم ، خطبات مدارس ، عرب وہند کے تعلقات ، عر بوں کی جہاز رانی ، سیر ت عائشہ ، حیات شبلی ، خیام اور نقوش سلیمانی شامل ہیں۔علامہ سیلمان ندوی کو شعر و سخن کا بھی شوق تھا۔ان کا شعری مجموعہ ”ارمغان سیلمان“ کے عنوان سے شائع ہو ا۔ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو ”نشان سپاس “سے نوازا۔ نومبر کے آخری مہینے 1953ءکو مولانہ ندوی مجاہد اسلام ، عالم ، ادیب شاعر علامہ شبلی نعمانی کے رفیق کا راور شاگر د مولف ”سیرت النبی “نے دار فانی سے کوچ کیا اور ما لک حقیقی سے جاملے مولانا کی آخری آرام گا ہ اسلامیہ کالج کر اچی کے عقب میں ایک احاطہ میںواقع ہے۔ان کی تد فین کے وقت سفیر شا م نے کہا کہ ہم سلیمان ندوی کو دفن نہیں کر رہے بلکہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام دفن کررہے ہیں۔


.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے