aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب "تذکرے اور تبصرے" جلیل قدوائی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، کتاب کے پہلے مضمون میں میر محمد علی بیدار کی شخصیت پر گفتگو کی گئی ہے، ان کی شاعری کی خوبیاں اور موضوعات ذکر کئے گئے ہیں، بیدار کے کلام کا درد کے کلام سے تقابل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد منتخبات مشتاق، مختصر شعری مجموعہ پر تحقیقی گفتگو کی گئی ہے، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان اشعار کے خالق کا تذکرہ نہیں ملتا ہے، مجموعہ میں موجود اشعار کے معیار و مقام پر گفتگو کی گئی ہے۔ پھر حسرت موہانی کی شاعری پر تنقیدی گفتگو کی گئی ہے، ان کی شاعری کے موضوعات کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر طنز کے مفہوم پر گفتگو کرتے ہوئے اردو شاعری میں طنز و ظرافت اور خاص طور پر مومن کی غزلوں میں موجود طنز اور اس کے معیار پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے بعد حالی کی شاعری پر گفتگو کی گئی ہے، پھر جگن موہن لال رواں کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالی گئی ہے، اقبال کے ایک شعر پر بھی تحقیقی گفتگو کی گئی ہے، آخر میں چند کتابوں پر مختصر تبصرے کئے ہیں، مضامین تحقیقی اور انفرادیت کے حامل ہیں۔
جلیل قدوائی 16 مارچ 1904 کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے ۔ علیگڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات ونشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور وزارت اطلاعات ونشریات میں کئی اعلی عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔