aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نام: میر خورشید علی
تخلص: نفیس
نسبت: میر ببر علی انیس کے سب سے بڑے فرزند
نفیس لکھنوی اردو مرثیہ گوئی کی روایت کے ایک معتبر اور اہم نام ہیں۔ آپ کا اصل نام میر خورشید علی تھا اور تخلص نفیس اختیار کیا۔ آپ اردو کے عظیم مرثیہ گو شاعر میر ببر علی انیس کے سب سے بڑے فرزند تھے، جنہوں نے اپنے والد کے شعری ورثے کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اپنے منفرد انداز میں اس صنف میں گراں قدر اضافہ بھی کیا۔
نفیس لکھنوی کی ولادت فیض آباد میں ہوئی۔ ان کی تاریخِ پیدائش کے حوالے سے مختلف اور متضاد بیانات ملتے ہیں، اسی لیے ان کے سالِ ولادت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ ان کی ابتدائی تربیت و پرورش فیض آباد کے علمی و ادبی ماحول میں ہوئی۔
آپ کا انتقال 13 ذیقعد 1318 ہجری بمطابق 3 مارچ 1901 کو یرقان میں مبتلا رہنے کے بعد ہوا۔
نفیس لکھنوی نے اپنی شاعری کے ذریعے مرثیہ گوئی کی روایت میں ایک خاص مقام بنایا۔ ان کے کلام میں فن کی نزاکت، جذبات کی شدت اور مرثیے کی روحانی فضا کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ ان کے مراثی کو نہ صرف مجالس میں پڑھا گیا بلکہ بعض اشعار کو بطور سوز بھی شامل کیا گیا، جس سے ان کے کلام کی تاثیر اور مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان کے مرثیوں میں میر انیس کی فکری و فنی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے، مگر نفیس نے اپنے تجربے اور انداز سے اس روایت کو ایک نئی تازگی بھی عطا کی۔ ان کے بعض اشعار آج بھی مرثیہ خوانی کی محافل میں اپنی تاثیر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
نفیس لکھنوی کی حیثیت اردو مرثیہ گوئی میں ایک ایسے شاعر کی ہے جس نے خانوادۂ انیس کی روایت کو زندہ رکھا اور اسے اپنی انفرادیت کے ساتھ آگے بڑھایا۔ ان کے کلام کے جواہر آج بھی مرثیہ خوانوں اور ادب کے قارئین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here