آہیں منہ سے مرے نکلنے دو
درد میں کروٹیں بدلنے دو
قفس جسم سے نکلنے دو
مرغ جاں کا بھی دل بہلنے دو
رونے والے جہان کے روتے ہیں
میرے آنسو بھی کچھ نکلنے دو
غصہ کے وقت غیظ بھی کرنا
منہ سے کچھ بات تو نکلنے دو
سب تو قیدیں تھیں زندگی کیسی
دم کو تو جسم سے نکلنے دو
مہندی ملتے ہو تم جو غیروں میں
کف افسوس ہم کو ملنے دو
زندے مردے تو مردے زندہ ہوں
فتنۂ حشر کو تو چلنے دو
چونٹے ہاتھوں سے کیوں چھڑاتے ہو
مار گیسو کا سر کچلنے دو
دل پسے گا خود ان کا مثل حنا
لاش کشتوں کی تو کچلنے دو
بوسے سیب ذقن کے دو ہم کو
شجر آرزو کو پھلنے دو
حال کہتا ہوں بے قراروں کا
دل بیتاب کو سنبھلنے دو
دل ہدف ہوں گے آسمانوں کے
ناوک آہ کو تو چلنے دو
نہ کرو ترک شغل بوس و کنار
دو گھڑی دل ذرا بہلنے دو
لاکھوں ہوں گے اسی ادا سے شہید
لے کے تلوار تو ٹہلنے دو
بوسے رک رک کے دو نہ وصلت میں
دل کے ارمان تو نکلنے دو
دم بھی ہو جائے گا ہوا میرا
منہ سے ہو تو مرے نکلنے دو
حشر برپا کریں گے دیوانے
اک ذرا قبر سے نکلنے دو
شوق سے چاک چاک دل کو کرو
تیغ ابرو کا وار چلنے دو
لوٹتے ہوں گے سیکڑوں بسمل
کوئے قاتل میں تیغ چلنے دو
دیکھو کہتا ہوں حال درد جگر
اک ذرا دل کو تو سنبھلنے دو
میرے پہلو میں بھی کبھی ہو گے
دہر کو کروٹیں بدلنے دو
حلق رکھیں گے دوڑ کر مشتاق
تیغ کاٹھی سے تو نکلنے دو
بوسہ دیتے ہی پھر پڑے گا تمہیں
دل ناداں کو تو مچلنے دو
سنگ رکھو نہ میری چھاتی پر
قبر میں کروٹیں بدلنے دو
فاخرؔ اشکوں سے کیوں بجھاتے ہو
آہ سوزاں سے دل کو جلنے دو
مأخذ:
کارنامۂ نظم (Pg. 177)
-
مصنف:
فاخر لکھنوی
-
- ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.