آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو
بیرون خواب کوئی ہمیں سن رہا نہ ہو
دیواریں اٹھ گئی نہ ہوں دشت جنون میں
رم خوردہ وہ غزال کہیں گمشدہ نہ ہو
رخت سفر میں باندھ لیں پر شور کچھ بھنور
دریا ہے پر سکون سفر بے مزہ نہ ہو
یوں تو وہ ایک عام سا پتھر ہے میل کا
لیکن وہاں سے آگے اگر راستہ نہ ہو
مسجد پکارتی رہی حی علی الفلاح
جیسے ہمارا اپنا کوئی فلسفہ نہ ہو
ہم کاٹ دیں گے عمر کی زنجیر ایک دن
ہم زاد کرب دید سے شاید رہا نہ ہو
اک چاند مجھ کو تاکتا رہتا ہے ان دنوں
جیسے سوائے میرے کوئی آئینہ نہ ہو
ہنس ہنس کے اس سے باتیں کیے جا رہے ہو تم
صابرؔ وہ دل میں اور ہی کچھ سوچتا نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.