آئی ہے اس بت کافر پہ طبیعت اپنی
بخت اپنے ہیں نصیب اپنے ہیں قسمت اپنی
اک زمانہ تھا کہ ہر روز چلے آتے تھے
اب تو مدت سے دکھاتے نہیں صورت اپنی
کس بھروسے پہ تو مغرور ہے منعم اتنا
جان اپنی ہے نہ دولت نہ حکومت اپنی
میں بلانوش ہوں ساقی مجھے دے بھر کے سبو
ایک ساغر سے نہیں بھرتی ہے نیت اپنی
وعدۂ وصل قیامت ہی کو پورا ہوگا
انتظار اس کا نہیں یہ ہے قیامت اپنی
عطر سے بڑھ کے معطر ہے یہ زلفوں کا خیال
جس کی خوشبو سے مہک جائیں گی تربت اپنی
ہم بھی بے مثل ہیں رکھتے نہیں دنیا میں مثال
کسی صورت سے نہیں ملتی ہے صورت اپنی
جب گزر گور غریباں پہ ہو تھم کر چلئے
حشر سے پہلے نہ ہو جائے قیامت اپنی
جب کہ تیرے ہی سوا مونس و غم خوار نہیں
پھر نہ کیوں عرض کریں تجھ ہی سے حالت اپنی
پیر کا ہے یہ تصدق کہ ہوں مشہور جہاں
عشق محبوب خدا سے ہوئی شہرت اپنی
مجھ سا تو بھی تو ہے اک بندۂ عاجز منعم
کیوں دکھاتا ہے ہمیں شوکت و حشمت اپنی
یوں ہی حسرت میں نکل جائیں گی کیا جان حزیں
یا الٰہی کبھی لڑ جائیں گی قسمت اپنی
آئنہ کو ہوئی حیرت مری خود بینی سے
ملتی جلتی کسی صورت سے ہے صورت اپنی
سر مرا بار گراں ہے تن بے جاں پہ مرے
تیغ قاتل سے نکل جائیں گی کلفت اپنی
مجھ کو بدنام کیا گریہ و زاری نے مری
آبرو ہی نہ رہی اور نہ ہے عزت اپنی
بعد مرنے کے بھی آئے گا نہیں چین مجھے
توڑ کر صاف نکل جاؤں گا تربت اپنی
دور سے کرتا ہوں زاہد تری چاہت کو سلام
تیری صحبت سے بگڑ جائیں گی عادت اپنی
بادہ خواری سے قمرؔ خلق میں بدنام ہوا
رونا آتا ہے مجھے دیکھ کے حالت اپنی
مأخذ:
بیاض عاشقان (Pg. 85)
- مصنف: قمر ہلالی
-
- ناشر: تاج پریس، حیدرآباد
- سن اشاعت: 1916
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.