آج سے پہلے نہ یوں رسوا سر بازار تھا
آج سے پہلے نہ یوں رسوا سر بازار تھا
ہے یہی وہ آدمی جو صاحب کردار تھا
چار سو دام ہوس تھا اور دل خوددار تھا
وہ کشاکش تھی کہ جینا ہی مرا دشوار تھا
خاک میں غلطاں اسی کا طرۂ دستار تھا
عظمت اجداد کا جو حاشیہ بردار تھا
سربلندی کا زمانے میں وہی حق دار تھا
نام حق پر جس کے حصہ میں فراز دار تھا
تھی خذف ریزوں کی دوکاں اور کھلا بازار تھا
کوئی گاہک ہی نہیں تیرا در شہوار تھا
جس جگہ دیکھا سوا نیزے پہ ہم نے آفتاب
عرصۂ محشر نہ تھا وہ کوچۂ دل دار تھا
جوش گریہ میں بھی رکھا تیرے دامن کا لحاظ
کس قدر محتاط میرا دیدۂ خونبار تھا
تم سے اہل زر کی شان کج کلاہی کیا کہیں
جو بھی داخل صف میں تھا مست مئے پندار تھا
زخم پا کو دیکھتے کیا اس کی فرصت ہی نہ تھی
جبکہ صحرائے جنوں میں تشنہ لب ہر خار تھا
ساقیٔ مہوش کی آنکھوں کا اثر تو دیکھیے
جام ابھی آیا نہ تھا اور بادہ کش سرشار تھا
کس طرح کرتے مداوائے غم جاناں بھی ہم
دل ہی جب اپنا حریص لذت آزار تھا
ڈال دی پھر بھی بنائے آشیاں بہزادؔ نے
گرچہ ہر ذرہ چمن کا درپئے آزار تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.