آندھی کی زد میں شمع تمنا جلائی جائے
آندھی کی زد میں شمع تمنا جلائی جائے
جس طرح بھی ہو لاج جنوں کی بچائی جائے
بے آب و بے گیاہ ہے یہ دل کا دشت بھی
اک نہر آنسوؤں کی یہاں بھی بہائی جائے
عاجز ہیں اپنے طالع بیدار سے بہت
ہر رات ہم کو کوئی کہانی سنائی جائے
سب کچھ بدل گیا ہے مگر لوگ ہیں بضد
مہتاب ہی میں صورت جاناں دکھائی جائے
کچھ ساغروں میں زہر ہے کچھ میں شراب ہے
یہ مسئلہ ہے تشنگی کس سے بجھائی جائے
شہروں کی سرحدوں پہ ہے صحراؤں کا ہجوم
کیا ماجرا ہے آؤ خبر تو لگائی جائے
نازل ہو جسم و روح پہ جب بے حسی کا قہر
اس وقت دوستو یہ غزل گنگنائی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.