آنکھ رکھتے ہوئے توہین نظر کون کرے
آنکھ رکھتے ہوئے توہین نظر کون کرے
ناؤ ٹوٹی ہوئی دیکھے تو سفر کون کرے
سب یہاں پار اترنے کے لئے بیٹھے ہیں
سامنا تند ہواؤں کا مگر کون کرے
لاش بے گور و کفن کب سے پڑی ہے باہر
سبھی قاتل ہوں تو بستی میں خبر کون کرے
لوگ جنگل کے درختوں کو اٹھا لے گئے گھر
دھوپ میں جلتے پرندوں پہ نظر کون کرے
دور تک راہ میں چھایا ہے خزاں کا منظر
خواب آنکھوں میں نہ مہکے تو سفر کون کرے
جھلملا دے تجھے اک موج ہوا کی آہٹ
شمع بے مایہ ترے ساتھ سحر کون کرے
امتحان دل و جاں ہے یہ محبت کی صلیب
سہل ہو معرکۂ شوق تو سر کون کرے
آج لفظوں کا بھرم ٹوٹ گیا ہے قیصرؔ
ہم بھی نقاد ہیں تنقید مگر کون کرے
مأخذ:
(Pg. 29)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.