آنکھوں میں خواب دل میں امید سحر بھی ہے
آنکھوں میں خواب دل میں امید سحر بھی ہے
اور سامنے چراغ سر رہ گزر بھی ہے
رفتار کائنات کی کچھ تیز تر بھی ہے
ہو جائے حادثہ نہ کوئی اب یہ ڈر بھی ہے
محور پہ اپنے گھومے ہے رقاصۂ زمیں
سانسوں کے زیر و بم کا رتوں پر اثر بھی ہے
آؤ پلٹ کے چلتے ہیں پھر بزم یار میں
کیا جا کے چھوڑ آئے وہاں کچھ خبر بھی ہے
اس فصل گل میں ٹھہرا ہے ملنا کسی سے جب
در پیش ہم کو دشت جنوں کا سفر بھی ہے
کیوں چھیڑئیے سرود غم زیست پھر نفیسؔ
کانٹوں سے بچ کے چلئے کہ ایسی ڈگر بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.