عارض کا رنگ یا تری زلفوں کے بل نہیں
عارض کا رنگ یا تری زلفوں کے بل نہیں
کیسے کہوں کہ میری غزل اب غزل نہیں
یہ جانتے ہوئے بھی کہ وعدے اٹل نہیں
مجبور اعتبار کے ماتھے پہ بل نہیں
شاید مری حیات کا موسم بدل گیا
اب آرزو کی جھیل میں دل کا کنول نہیں
راتوں کی نیند سے مری آنکھوں کو بیر ہے
اے دل مری دعاؤں کا یہ تو بدل نہیں
پہلے تھے ویسے لوگ زمانے میں اب کہاں
اس واسطے رواج وفا آج کل نہیں
پتھر برس رہے تھے یہ کہتے ہوئے وہاں
اس پیڑ کو جلاؤ کوئی جس پہ پھل نہیں
آپس میں رسم و راہ بڑھانے کے واسطے
لازم یہ ہے کہ لوگ کریں آج کل نہیں
اس چیز کی طرح ہے نہ ہوں جس کے خواست گار
وہ شخص جس میں قوت عزم و عمل نہیں
بزم نشاط یار میں رونے کو آ گئے
منزلؔ تمہاری بات بھی کچھ بر محل نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.