آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں (ردیف .. ے)
آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں
چاہت کی اس حد پر یا رب ہم تو دوانے لگتے ہے
سننے والا کوئی اگر ہوتا کہتے دل کی باتوں کو
اس کے بنا تو آج ادھورے اپنے فسانے لگتے ہیں
پھر سے بہاریں لے کر آئی مہکی ہوئی سی یادوں کو
آ بھی جاؤ اب ملنے کے اچھے بہانے لگتے ہیں
دل کرتا ہے پھر سے دیکھوں کھوئے ہوئے اس منظر کو
پیاسی آنکھو کو وہ نظارے کتنے سہانے لگتے ہیں
خوشبو وہی ہے رنگ وہی ہے آج وفا کے پھولوں کا
آپ کیا آئے پھر سے چمن میں دن وہ پرانے لگتے ہیں
ٹوٹی ہوئی سی ایک کرنؔ ہے کافی اندھیرے والوں کو
گھر میں اجالا ڈھونڈھنے والے گھر کو سجانے لگتے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.