اب تو لے دے کے یہی ایک ہنر میرا ہے
اب تو لے دے کے یہی ایک ہنر میرا ہے
آسماں حد ہے تو اٹھتا ہوا سر میرا ہے
اینٹ سے اینٹ جو بجتی سی نظر آئے کہیں
وہ عمارت ہی سمجھ لیجئے گھر میرا ہے
یہ بیابان یہ صحرا یہ سمندر یہ سڑک
سب کو رد کر کے گزرنے کا سفر میرا ہے
یہ فسادات مرے خون کے پیاسے ہیں فقط
جو بدن بھی ہے کہیں خون میں تر میرا ہے
اے خدا عالم افلاک کا احوال سنا
اس زمیں پر تو سنا ہے کہ اثر میرا ہے
بے بسی اشک بہاتی ہے مری میت پر
دھڑ کہیں کٹ کے گرا ہے کہیں سر میرا ہے
کیا یہی ہے مری معصوم محبت کا گناہ
اشک بھی میرے گریبان بھی تر میرا ہے
ارتضٰیؔ ایسے بھی جملے تھے کہیں تم نے سنے
لاش یہ میرے پتی کی یہ پسر میرا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.