اگر دماغ سے باغی ہوئے نہیں ہوتے
اگر دماغ سے باغی ہوئے نہیں ہوتے
دل و نظر کے حسیں سلسلے نہیں ہوتے
عجیب بات ہے پی کر بھی روشنی کا لہو
مری زمین کے پودے ہرے نہیں ہوتے
اگر لہو نہیں کرتا میں اپنے پاؤں یہاں
تری زمیں پہ کہیں راستے نہیں ہوتے
یہ لوگ عجز کی تاثیر سے نہیں واقف
اسی لئے تو یہاں معجزے نہیں ہوتے
نہ کر تلاش مقدر کا آسماں ان پر
ہتھیلیوں پہ ستارے جڑے نہیں ہوتے
یہ ارد گرد کی موجودگی تو برحق ہے
مگر وہ لوگ جو ہوتے ہوئے نہیں ہوتے
مجھے بتائے سبب کوئی ناگہانی کا
بلا جواز اگر حادثے نہیں ہوتے
ہم اصل شکل بہر کیف دیکھتے عاصمؔ
فریب خیز اگر آئنے نہیں ہوتے
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 109)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.