اگر موسم سہانا چاہیے تھا
اگر موسم سہانا چاہیے تھا
تمہیں بارش میں آنا چاہیے تھا
اندھیروں کا اگر تھا خوف دل میں
تمہیں سورج اگانا چاہیے تھا
تمہاری یاد آئے بے سبب کیوں
غزل کو تو بہانہ چاہیے تھا
مسل کر پھول آخر مل گیا کیا
ہمارا خوں بہانا چاہیے تھا
چھپا مت خاک میں آنسو گرا کر
سمندر کو دکھانا چاہیے تھا
امیر شہر برہم اس لیے ہے
اسے خاطر میں لانا چاہیے تھا
اگر حق بات کی تائید کی تھی
فلک سر پر اٹھانا چاہیے تھا
اگرچہ خار راہ عشق میں تھے
تمہیں چلنا بھی آنا چاہیے تھا
بنا کر آئنہ کیوں ظلم ڈھایا
ہمیں پتھر بنانا چاہیے تھا
ستارے ٹوٹتے رہتے ہیں خود ہی
فلک سے چاند لانا چاہیے تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.