عجیب ڈھب کا مسافر ہے گھر نہ آئے گا
عجیب ڈھب کا مسافر ہے گھر نہ آئے گا
جو وقت بیت گیا لوٹ کر نہ آئے گا
یہ اقتدار ملا ہے بڑے جتن کر کے
اب ان کو اپنے سوا کچھ نظر نہ آئے گا
چراغ کیسے جلیں گے اداس پلکوں پر
جو ڈھل کے اشکوں میں خون جگر نہ آئے گا
یہ گمرہی بھی نئے راستے نکالے گی
ہمارے آگے اگر راہ بر نہ آئے گا
نہ جانے کیوں مری آنکھیں لگی رہیں در پر
میں جانتا تھا کہ وہ رات بھر نہ آئے گا
یہ سانحہ ہے کہ سر سے اٹھے گھنے سائے
اب اپنی راہ میں کوئی شجر نہ آئے گا
غموں کے پیڑ کے نیچے کھڑے ہوئے ہو انیسؔ
تمہارے ہاتھ خوشی کا ثمر نہ آئے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.