Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انیس کی معجز بیانی: تہذیبی جہات

گوپی چند نارنگ

انیس کی معجز بیانی: تہذیبی جہات

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    انیس کے شعری کمالات کا جائزہ لیتے ہوئے نہیں بھولنا چاہیے کہ وہی زمانہ جو لکھنؤ میں غزل میں ناسخیت کے عروج یعنی ہیئتی میکانکیت اور تغزل و تاثیر کے نسبتاً فقدان کا زمانہ ہے، بہت سی دوسری اصناف میں فروغ وبالیدگی اور تاریخی و تخلیقی تبدیلیوں کے اعتبار سے نہایت زرخیز زمانہ ہے۔ اگرچہ بہت سی تبدیلیوں کے محرک انہیں خاندانوں کے شعرا تھے جو دہلی سے لکھنؤ منتقل ہوئے تھے۔ ہرچند کہ ادبی تاریخ میں بہت سی تبدیلیوں کی تاویل معیار رسیدگی کے اعتبار سے کی جا سکتی ہے، لیکن یہ بات حیران کن نہیں تو کیا ہے کہ اسی زمانے میں جہاں میکانکی اور غیرتخلیقی ناسخیت کی جکڑ بندی اپنے عروج کو چھو رہی تھی، مرثیہ، مثنوی اور داستان گوئی میں تخلیقی زرخیزی کے ایسے ایسے کارنامے وجود میں آئے جن کی کوئی نظیر نہ تو اس کے پہلے کے زمانوں میں ملتی ہے اور نہ ہی بعد کے زمانوں میں۔

    گویا کہ ہندوستانی کلچر میں جس افتاد ذہنی اور مزاج کو لکھنویت کہا گیا ہے (جس کی مثبت تعریف ہنوز کم ہی کی گئی ہے۔) مرثیہ، مثنوی اور داستان گوئی کی بےمثال ترقی کا گہرا تعلق اسی تہذیبی سائیکی سے تھا جس نے غزل میں میکانکیت کو فروغ دیا تھا۔ یہ تاریخ کا عجوبہ نہیں تو کیا ہے کہ اردو کی شاہکار مثنویاں خواہ سحرالبیان ہو یا گلزار نسیم یا مرزا شوق کی زہر عشق اور دیگر مثنویاں، ان سب کا تعلق اسی زمانے سے ہے۔ یہی معاملہ داستان گوئی اور طلسم ہوشربا اور فسانۂ آزاد کا ہے جن کی تخلیقیت ہر اعتبار سے مثالی درجہ رکھتی ہے۔ مزید یہ کہ یہی زمانہ اردو میں داستان سے ناول کی طرف گریز کا بھی ہے۔ اور معجزوں کا معجزہ تو مرثیے کی تاریخ میں رونما ہوا یعنی وہی مرثیہ جو اس سے پہلے گھٹنوں کے بل چل رہا تھا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے تخلیقی فروغ، معیار رسیدگی اور فنی کمال کی اس بلندی کو پہنچا کہ کہا جاسکتا ہے کہ انیس اور ان کے معاصرین نے اپنے زور بیان، پرواز تخیل اور کمال فن سے گویا جمالیات شعری کی سب سے اونچی چوٹی یعنی ایورسٹ کو چھو لیا۔

    ہرچند کہ مرثیہ اس کے بعد بھی لکھا جاتا رہا اور آج بھی کہا جا رہا ہے، اساتذۂ فن کے اپنے اپنے کمالات اپنی جگہ، وہ زمانہ تو کیا اس کی پرچھائیں بھی اس کے بعد کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ صنف مرثیہ کا یہ فروغ اور انیس کی معجزکاری جس نے مرثیے کے زیادہ تر تخلیقی امکانات کو ہمیشہ کے لیے exhaust کر دیا، تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو انیس شناسی کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس کا گہرا تعلق اس تہذیبی سائیکی، اس شعریات اور اس ادبی جمالیات سے نہیں تھا جو اپنے زمانے کی تشکیل تھی اور اپنے زمانے کے ساتھ خاص تھی؟

    مطالعۂ انیس میں یہ بنیادی سوال ہمیشہ راقم الحروف کے پیش نظر رہا ہے اور انیس شناسی یا مرثیے کے ضمن میں اب تک میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، اس کا کچھ نہ کچھ تعلق اس سوال سے ضرور رہا ہے اور اس بارے میں میرا تجربہ یہ ہے کہ انیس کے کمال فن، یعنی معجز بیانی اور تخلیقیت کی جو جہتیں تہذیبی زاویۂ نظر سے کھلتی ہیں، وہ کسی اور طرح ممکن نہیں۔ مثلاً جس طرح فقط موضوعی عقیدت سے ادبی متن کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور سب سوالوں کے جواب نہیں ملتے، اسی طرح مجرد ادبی یا مجرد ہیئتی تجزیے سے بھی ان تمام بھیدوں کو پانا آسان نہیں ہے جو کلچر، زبان اور تخلیقی ذہن کے باہمی تعامل (عمل در عمل) سے تشکیل پذیر ہوتے ہیں۔ شاعری میں جس چیز کو معجز بیانی کہتے ہیں اگر وہ فقط ہیئتی ہوتی تو معجز بیانی ہوہی نہیں سکتی، کیونکہ ادب تہذیب کا چہرہ ہے اور پوری کی پوری تہذیبیں اور زمانے اسی چہرے سے ہمارے روبرو ہوتے ہیں۔

    تاریخ تو فقط خاکہ ہے نقوش رفتہ کا، زمانے زندہ رہتے ہیں تو فقط شاعری میں، اور زمانے بولتے ہیں تو فقط شاعری میں۔ انیس کا وہی مطالعہ سچا اور کھرا ہے جس میں ان کی تخلیقیت تاریخ کی روح اور کلچر کے جوہر کی زبان بن جاتی ہے اور اسے آنے والے ہر زمانے کے لئے زندۂ جاوید بنا دیتی ہے۔

    مجرد ادبی مطالعے کی بہترین مثال شبلی کی موازنۂ انیس و دبیر ہے جس میں زیادہ توجہ فصاحت وبلاغت کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اس سے بہتر بحث انیس کے کمال فن کی داد دینے کے یے کسی سے نہ بن پڑی۔ میں کہتا رہا ہوں کہ نقد انیس ایک صدی سے اسی راہ پر گامزن ہے۔ فلسفے کی دنیا کی طرح ادبی نقد کی دنیا میں بھی کبھی کبھی ایک قدم بڑھانا گویا بہت بڑا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ یہ بہت کم سوچا گیا ہے کہ بجائے خود فصاحت و بلاغت کا تصور شعریات کا حصہ ہے اور خود شعریات تشکیل ہے تہذیب اور معاشروں کے ذہن و مزاج کی جو static نہیں ہوتے اور تہذیبوں کے آر پار بدل جاتے ہیں۔ انیس کو کیا تصورات ورثے میں ملے اور انیس کی تخلیقیت نے ان کو کیا جمالیاتی بلندی عطا کی (جو ان کی معجز بیانی کا حصہ ہے) ، نقد انیس کا اگلا سفر غالباً اس راہ میں ہوگا اور ہونا بھی چاہیے۔

    دوسرے یہ کہ شاعری ہر چند کہ نہ فلسفہ ہے نہ مذہب، لیکن شاعری کا گہرا تعلق فلسفے سے بھی ہے اور مذہب سے بھی۔ بڑے فنکار کی ایک پہچان یہ ہے کہ اگر اس کے جہان شعر کا تعلق کسی عقیدے سے ہے تو وہ اس کی حدود کو ایسی وسعت اور بالیدگی عطا کرتا ہے کہ عقیدہ مذہبی تحدید سے ماورا ہوکر آفاقیت اور انسانیت کی آوازیں بن جاتا ہے اور زمان و مکان سے بے نیاز ہوکر اس وسیع تردرد مندی میں ڈھل جاتا ہے جو میراث آدم ہے۔ یوں ایک مذہبی نشان sign یا موٹف یکسر سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس پر بعض لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن مذہب کو غیر مذہبی بنانا ادب کا کمال ہے۔

    مذہب کا مقام بلند سہی، لیکن ادب کی دنیا یہی بتاتی ہے کہ ادب عقیدے، فلسفے، سیاست، نظریے سب سے آ گے جاتا ہے، اس لیے کہ جہاں مذہب کی اپیل فقط عقیدت مند کے لیے ہوتی ہے، شاعری کی اپیل سب کے لیے یعنی پوری انسانیت کے لیے ہوتی ہے اور انیس نے یہی کام کیا کہ اسوۂ شبیری کی حق شناسی اور درد مندی کی دولت کو اردو شاعری کی حق شناسی اور درد مندی کے آفاق میں ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

    انیس کے بعد حالی ہوں، چکبست یا اقبال، جوش ہوں یا محمد علی جوہر، جاں نثار اختر یا علی سردار جعفری، بیسویں صدی کی نظم گوئی پر انیس کا تخلیقی اثر صاف دیکھا جا سکتا ہے، فکشن میں قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے فن کو اس وقت تک سمجھا ہی نہیں جا سکتا جب تک اس تخلیقی سائیکی کو نظر میں نہ رکھا جائے جو روایت میں تہہ نشیں تو تھی، لیکن جس کی دردمندی کو ادب کی آفاقی دردمندی کی دولت انیس نے دی اور اسے ادبی تخلیقی روایت کا زندہ دھڑکتا ہوا حصہ بنا دیا۔

    یہ تخلیقی اثرات نظم نگاری اور فکشن کے علاوہ غزل پر بھی پڑتے رہے ہیں۔ انیس سے پہلے ان میں کچھ حصہ خدائے سخن میر تقی میر کا بھی ہے اور انیس کے بعد سب سے زیادہ اثر اقبال کی شاعری کا ہے کہ امام حسین کی شہادت اور اسوۂ شبیری کی روایت اردو کی احتجاجی شاعری کے قلب کی دھڑکن بن گئی۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کو راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ: جدید اردو شاعری کا تخلیقی رجحان‘‘ میں نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلا کسی خود نمائی کے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے ہم عصر شاعری کے حوالے سے یا احتجاجی شاعری کے حوالے سے کسی کی نظر اس طرف نہ گئی تھی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تخلیقی جہت بھی اس لیے سامنے آئی اور نشان زد ہو سکی کہ متن کو مجرد متن کے طور پر نہیں بلکہ تہذیبی تخلیقی سائیکی اور زمانے اور کلچر کی تشکیل کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی گئی۔

    اس بات کو سب نے تسلیم کیا کہ احتجاجی شاعری بالخصوص معاصر غزل کی احتجاجی شاعری میں یہ لے خاصی نمایاں ہے جس کے نشانات تو منیر نیازی اور پروین شاکر کے یہاں دیکھے جا سکتے تھے، لیکن جس کو شعری رجحان کی شکل افتخار عارف اور عرفان صدیقی نے دی اور جس کا اثر ہندو پاک کے کم و بیش تمام شعرا پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

    اس کے بعد میں ان دو اہم مسائل پر توجہ دلانا چاہوں گا جو پچھلی ربع صدی سے یعنی 1975-76سے میرے مطالعے کا موضوع رہے ہیں جب برصغیر کے طول و عرض میں انیس صدی منائی گئی تھی۔ ہر چند کہ ان ا مور کا تعلق حیطۂ نقد سے نہیں، تاہم بطور پس منظر کے ان کے ذکر میں مضائقہ بھی نہیں کہ کل ہند مرکزی انیس صدی کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے راقم الحروف نے دو مہتم بالشان ہند و پاک سمینار منعقد کیے جن میں سے ایک کا افتتاح اس وقت کے صدر جمہوریۂ ہند مرحوم فخرالدین علی احمد نے فرمایا اور دوسرے کا مرکزی وزیر تعلیم پروفیسر نورالحسن نے کیا اور بعد میں راقم الحروف نے مقالات پر مبنی کتاب ’’انیس شناسی‘‘ شائع کی جس میں آل احمد سرور، علی سردار جعفری، صالحہ عابد حسین، علی جواد زیدی، نائب حسین نقوی، شہاب سرمدی، شبیہ الحسن، انتظار حسین، وحید اختر، ظ انصاری، نیر مسعود، اکبر حیدری کاشمیری، زاہدہ زیدی، مجیب رضوی، شارب ردولوی اور راقم الحروف کے بطور خاص لکھے گئے مقالات شریک ہیں۔ تعجب ہے کہ پچیس برس گزرنے کے بعد بھی انیس شناسی کی راہ میں اہل نظر کا کوئی اور مجموعۂ نقد ہنوز منظر عام پر نہیں آیا جس کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ باز گوئی کی طرح نقد میں بھی باز مطالعے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    بہر حال جن مسائل پر میں برابر توجہ منعطف کرانے کی کوشش کرتا رہا ہوں، ان میں سے ایک کا تعلق مرثیے کے ناسخیت سے ٹکر لینے اور اس کی شرائط پر اس کو شکست دینے سے ہے ورنہ اس تہذیبی فضا میں میکانکی غزل کو جو مرکزیت حاصل تھی، اس میں تخلیقی مرثیے کا ابھرنا اور اس کا قائم ہونا محال تھا۔ انیس نے یہ کام ناسخیت کے اجزا کی تقلیب سے کیا اور نہ صرف مرثیہ میں مسدس کے بند کو قصیدے کا ہم پلہ بنا دیا بلکہ تغزل کی دردمندی اور گداز کو بھی اس میں گوندھ کر مسدس کو ایسی تخلیقی شکل دے دی جو حددرجہ اثر انگیز اور مقبول خاص و عام ہو گئی۔

    میرے دوسرے مسئلے کا تعلق انیس کی کردار نگاری کی اس تہذیبی جہت سے ہے جسے بعض ناقدین بالعموم مرثیے کے کرداروں کو اودھ کی معاشرت کے قالب میں پیش کرنا اور ان کا غیرحقیقت پسندانہ ہونا کہتے ہیں اور راقم الحروف جسے زبان کے تمام تخلیقی امکانات کا بروئےکار لانا اور اعلیٰ پائے کی فنکاری کی ناگزیریت قرار دیتا ہے۔ تعجب ہے کہ یہ بات کسی نے نہیں سوچی کہ بڑے سے بڑا فنکار بھی زبان کے استعمال میں اتنا آزاد نہیں ہوتا جتنا سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھی وہ زبان کو نئی گرامر ضرور دیتا ہے جس کا مطلب ہے زبان کے کسی سوئے ہوئے حصے کو جگانا۔ لیکن زبان کا خزانہ اس کا بھی وہی ہوتا ہے جو زبان بولنے والے سب کا یعنی اہل زبان کا ہوتا ہے۔ زبان کا خزانہ ہمیشہ دیا ہوا ہوتا ہے (Always Already Given) اسی پرانے خزانے میں سے فنکار کی تخلیقیت نئی نئی شکلیں خلق کرتی ہے، جو جادو جگاتی ہیں۔

    لیکن یاد رہے کہ کلچر زبان میں کھدا ہوا ہے، زبان ایک نظام نشانات Sign System ہے جس کا اپنا جبر ہے جس سے کوئی صرف نظر نہیں کر سکتا۔ انیس کے معترضین نے اردو Sign System کی نوعیت وماہیت پر کبھی غور نہیں کیاورنہ اعتراض کی گنجائش ہی نہ تھی۔ بڑا فنکار زبان کے زیادہ سے زیادہ تخلیقی امکانات کو بروئےکار لانا چاہےگا تو اس زبان کے Sign، اس کی ترکیبیں، اس کے روزمرہ، اس کے محاورے، اس کے آداب واطوار، اس کے انداز تخاطب، اس کی دعائیں، نشست و برخاست، رسوم ورواج، غرض جو بھی زبان کے Sign System کا حصہ ہیں، لامحالہ ان سب کو ہی بروئے کار لائےگا۔ گویا مسئلہ ’’بولے وہ ہاتھ جوڑ کے عباس نامور‘‘ یا ’’بہنوں کو نیگ لینے کی حسرت ہی رہ گئی‘‘ یا ’’صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے‘‘ جیسے اظہارات کا نہیں بلکہ زبان کے سانس لیتے ہوئے، زندہ دھڑکتے ہوئے لہجے سے تخلیقی کام لینے کا ہے جو اس تہذیب و معاشرت سے گتھا ہوا تھا جس کو بالعموم ’’اردو کلچر‘‘ کہا جاتا ہے۔

    اس تہذیبی Ethos ’’قالب‘‘ سے زبان کو الگ کرنا گویا زبان کو نرس اور Flat کرنا تھا۔ کوئی عظیم فن کار ایسا نہیں کر سکتا۔ انیس نے ایسا نہیں کیا۔ چنانچہ اس سے انیس پر اعتراض کا نہیں بلکہ انیس کی عظمت کا پہلو نکلتا ہے کہ انیس نے زبان کو اس کے تمام تخلیقی امکانات کے ساتھ اس درجۂ حرارت پر استعمال کیا جو زندگی کی دردمندی کی ترسیل کے لیے ضروری تھا، ورنہ ہر شے Flat ہو جاتی۔ چنانچہ وہی عرب کردار جو تاریخی خاکہ بھر تھے، انیس کے یہاں غیرمعمولی طور پر جیتے جاگتے اور دکھ کا بوجھ ڈھوتے ہوئے حق کی پاسداری کے لیے اس قربانی کے حصے دار نظر آتے ہیں جو انسانیت کی تاریخ میں فقیدالمثال ہے۔ تاریخ میں، غیر معمولی کو غیرمعمولی کہہ دینا کافی ہے لیکن ادب میں فقط اسمائے صفت سے یعنی فقط غیرمعمولی کہہ دینے سے کام نہیں چلتا، یہاں اس کا غیرمعمولی پن دکھا دینا اور اسے محسوس کرا دینا ضروری ہے، ورنہ خالی لفظوں کی ضربوں سے کچھ نہیں ہوتا۔

    روسی مفکر شکلووسکی کا کہنا ہے کہ ادب میں پتھر کو پتھر کہنے سے کام نہیں چلتا۔ شے کا شے ہونا ادب میں ضروری نہیں بلکہ اس کے شے پن یعنی پتھر کے پتھریلے پن کو محسوس کرا دینا تاکہ حواس، جو زبان کو روزمرہ برتنے کے معمول (روٹین) سے کند ہو جاتے ہیں اور لفظ بے اثر ہو جاتے ہیں وہ ایک بار پھر زندہ ہو اٹھیں اور فن کا چلتا ہوا جادو بن جائیں۔ زبان کو جگانا اور زندہ بنانا بڑے فنکاروں کامنصب ہے، انیس نے یہی بڑا کام کیا اور اثروتاثیر اور گداز و سوز کا ایسا جادو جگایا جو اس وقت بھی لاجواب تھا اور آج بھی لاجواب ہے اور وقت کے محور پر ہمیشہ کے لیے لازوال ہے۔

    مأخذ:

    انیس و دبیر (Pg. 9)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے