اپنے بے نور چراغوں کو ضیا دی جائے
اپنے بے نور چراغوں کو ضیا دی جائے
نہ کہ ہمسائے کی قندیل بجھا دی جائے
صبح کاذب ہے کوئی مل کے صدا دی جائے
یہ سیہ دھوپ کی دیوار گرا دی جائے
نغمہ و نے سے ابھاریں کوئی تصویر جنوں
جس میں شعلوں کی لپک ہو وہ صدا دی جائے
راز غم مجلس احباب کی تفریح نہیں
آئنہ خانے میں کیوں شمع جلا دی جائے
راستے قافلے والوں کی نظر میں ہیں تمام
دھول سے لاکھ بگولوں کو ہوا دی جائے
شکریہ تو مری فطرت ہے مگر سائے تو ہوں
دشت سے دھوپ کی جاجم تو اٹھا دی جائے
جس کا مدت سے ہے شیشے کے مکانوں میں رواج
ہم پہ اس عشق کی تہمت نہ لگا دی جائے
یوں بھی ہوتا ہے کہیں جور بہاراں کا علاج
پھول کی شکل بھی کانٹے سے ملا دی جائے
جن کے اشعار سے ہو گرم جوانوں کا لہو
کیوں مسلسل انہیں فاقوں کی سزا دی جائے
دار و زنداں کا تو اک شور بپا ہے لیکن
کوئی جینے کی تو تدبیر بتا دی جائے
ہر افق سے مری آواز پلٹ آتی ہے
کس دریچے سے انہیں جا کے صدا دی جائے
ایک افسانہ ہے ہاتھوں سے گریبانوں تک
بات بہروں کو سنا کر نہ گنوا دی جائے
اک مصور نے جو سونپی تھی امانت کی طرح
بعض کہتے ہیں وہ تصویر مٹا دی جائے
جن کو بے وقت مراعات نے بخشا ہے جنوں
ان پہ کچھ قید شرافت بھی لگا دی جائے
انقلابات ہیں خود اپنے اصولوں کا جواز
اب کے آئین میں یہ شق بھی بڑھا دی جائے
جس کی تہذیب مسلماں سے سنبھالی نہ گئی
پھر اسی کوئے تجلی میں صدا دی جائے
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
فرض ہے اس پہ محمد کی غلامی دانشؔ
جس کی تحویل میں مخلوق خدا دی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.