Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنے بے نور چراغوں کو ضیا دی جائے

احسان دانش

اپنے بے نور چراغوں کو ضیا دی جائے

احسان دانش

MORE BYاحسان دانش

    اپنے بے نور چراغوں کو ضیا دی جائے

    نہ کہ ہمسائے کی قندیل بجھا دی جائے

    صبح کاذب ہے کوئی مل کے صدا دی جائے

    یہ سیہ دھوپ کی دیوار گرا دی جائے

    نغمہ و نے سے ابھاریں کوئی تصویر جنوں

    جس میں شعلوں کی لپک ہو وہ صدا دی جائے

    راز غم مجلس احباب کی تفریح نہیں

    آئنہ خانے میں کیوں شمع جلا دی جائے

    راستے قافلے والوں کی نظر میں ہیں تمام

    دھول سے لاکھ بگولوں کو ہوا دی جائے

    شکریہ تو مری فطرت ہے مگر سائے تو ہوں

    دشت سے دھوپ کی جاجم تو اٹھا دی جائے

    جس کا مدت سے ہے شیشے کے مکانوں میں رواج

    ہم پہ اس عشق کی تہمت نہ لگا دی جائے

    یوں بھی ہوتا ہے کہیں جور بہاراں کا علاج

    پھول کی شکل بھی کانٹے سے ملا دی جائے

    جن کے اشعار سے ہو گرم جوانوں کا لہو

    کیوں مسلسل انہیں فاقوں کی سزا دی جائے

    دار و زنداں کا تو اک شور بپا ہے لیکن

    کوئی جینے کی تو تدبیر بتا دی جائے

    ہر افق سے مری آواز پلٹ آتی ہے

    کس دریچے سے انہیں جا کے صدا دی جائے

    ایک افسانہ ہے ہاتھوں سے گریبانوں تک

    بات بہروں کو سنا کر نہ گنوا دی جائے

    اک مصور نے جو سونپی تھی امانت کی طرح

    بعض کہتے ہیں وہ تصویر مٹا دی جائے

    جن کو بے وقت مراعات نے بخشا ہے جنوں

    ان پہ کچھ قید شرافت بھی لگا دی جائے

    انقلابات ہیں خود اپنے اصولوں کا جواز

    اب کے آئین میں یہ شق بھی بڑھا دی جائے

    جس کی تہذیب مسلماں سے سنبھالی نہ گئی

    پھر اسی کوئے تجلی میں صدا دی جائے

    قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو

    جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے

    فرض ہے اس پہ محمد کی غلامی دانشؔ

    جس کی تحویل میں مخلوق خدا دی جائے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے