باغ جنت پہ نہ افلاک پہ رکھا ہوا ہے
باغ جنت پہ نہ افلاک پہ رکھا ہوا ہے
دھیان اس کے بدن پاک پہ رکھا ہوا ہے
بڑھ کے خوشبو سے ہے جب لطف میں وہ نور قدیم
بوجھ سا کیوں مرے ادراک پہ رکھا ہوا ہے
صرف کہنے کو مکمل ہے یہ عالم ورنہ
آج بھی سارا جہاں چاک پہ رکھا ہوا ہے
عشق مبنی بہ ہوس کی میاں اوقات ہی کیا
ایک شعلہ ہے جو خاشاک پہ رکھا ہوا ہے
جو پجاری ہیں بدن کے ترے ان لوگوں کا
زور سارا تری پوشاک پہ رکھا ہوا ہے
ہم ہیں جس خاک سے جس خاک میں ملنا ہے ہمیں
تکیہ ہم نے بس اسی خاک پہ رکھا ہوا ہے
یہ جہاں یوں ہی منور تو نہیں ہے نجمیؔ
اک دیا گنبد افلاک پہ رکھا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.