باغ میں صبح و شام آنا جانا رہا لالہ و گل سے ملنا ملانا رہا
باغ میں صبح و شام آنا جانا رہا لالہ و گل سے ملنا ملانا رہا
جس زمانے کی یہ بات ہے دوستو اب وہ موسم نہ اب وہ زمانہ رہا
ہم غزل گائیں تو رقص کر ساقیا کہ سلامت ترا بادہ خانہ رہا
مے تو جام و صراحی میں بھرپور ہے خوں ہماری رگوں میں رہا نہ رہا
کون اے عشق تیرا پجاری بنے بزم میں کوئی اہل وفا نہ رہا
ایک گوشے میں ہم رہ گئے ہیں یہاں سو ہمارا بھی اب کیا ٹھکانہ رہا
یہ تو سچ ہے کہ سرمایۂ آبرو آج چند آنسوؤں کے سوا نہ رہا
طنز سے جن پہ تم ہنس رہے ہو گلو کل انہیں جیب و دامن میں کیا نہ رہا
یوں تو کہنے کو ہم چاک داماں بھی ہیں زلف برہم کی صورت پریشاں بھی ہیں
جب سے سر پھوڑ لینے کی عادت گئی تب سے دیوانگی میں مزا نہ رہا
عقل بیچاری لرزہ بر اندام ہے ہمت عشق چل اب ترا کام ہے
منزل دار پر لوگ یوں رک گئے جیسے آگے کوئی راستہ نہ رہا
گرچہ عاجزؔ ہیں ہم اور نادار ہیں محفل شاد کے رند خوددار ہیں
یہ خدا ساز چلو سلامت رہے جام کی کیا شکایت رہا نہ رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.