بارش ہوگی تو بارش میں دونوں مل کر بھیگیں گے
بارش ہوگی تو بارش میں دونوں مل کر بھیگیں گے
ریت پہ ایک مسافر کا گھر اور سمندر بھیگیں گے
اچھا میں ہارا تم جیتے آگے کی اک بات سنو
اب کے برس جب بارش ہوگی سوچ سمجھ کر بھیگیں گے
دھوپ کا اک ٹکڑا کیوں میرے سر پر سایہ کرتا ہے
کیا مجھ کو منظر سے ہٹا کر سارے منظر بھیگیں گے
کاغذ کی اک کشتی لے کر بارش میں کیوں نکلے ہو
بھولے بسرے بچپن کی یادوں کے پیکر بھیگیں گے
اچھے لوگوں کی بستی میں تم کیوں رہنے آئے ہو
یاں ہونٹوں پر پھول کھلیں گے خون میں خنجر بھیگیں گے
اس دن کی جب بارش ہوگی کون بچے گا ہم سفرو
پھول پرند چراغ جزیرے کنکر پتھر بھیگیں گے
اک فانوس ہے جس میں اپنی روح متینؔ سلگتی ہے
بھیگنا جب ٹھہرا تو اسی فانوس کے اندر بھیگیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.