برسوں کی مری پیاس بجھانے میں لگی ہے
برسوں کی مری پیاس بجھانے میں لگی ہے
اک آگ بڑی آگ لگانے میں لگی ہے
اب کھل کے گنوانے کے لیے وہ بھی نہیں ہے
جو عمر مجھے وقت کمانے میں لگی ہے
دستک سی کوئی ذہن میں پڑھتی ہے مگر کیا
اک ضد ہے جو آنکھوں کو سلانے میں لگی ہے
تنہائی سے نکلو تو تمہیں یاد دلاؤں
مشکل جو مجھے بھیڑ جٹانے میں لگی ہے
اک ذات مرے دل کے مکاں میں بھی نہاں ہے
اک ذات مری اب بھی زمانہ میں لگی ہے
چپ میری ابھی اور کسی چپ سے ہے دوچار
آہٹ کسی آہٹ کو دبانے میں لگی ہے
میں صاف سی اک روح تھا پانی کی طرح صاف
مٹی مجھے مٹ میلا بنانے میں لگی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.