بے سبب ہی شور سارا تھا کبھی
درد دل بھی دل کا چارہ تھا کبھی
خود سے اب باتیں نہیں ہوتی مگر
بارہا خود کو پکارا تھا کبھی
جل رہا ہے آج اپنے آپ میں
ہاں یہ شعلہ اک شرار تھا کبھی
زندگی پہلے تھی بے معانی ضرور
حال کیا ایسا ہمارا تھا کبھی
قتل کرنے کو بھرے بازار میں
میری گردن پر اشارہ تھا کبھی
کر رہا ہے کیوں تکبر گلستاں
گویا ہر دم ابر پارہ تھا کبھی
چل رہے ہیں کیوں زمیں کو تھام کر
گر نہیں جھکنا گوارہ تھا کبھی
ہم کو بھی آسان تھا کرنا سفر
نام اپنے اک ستارا تھا کبھی
بے وفاؤں سے بھری تنظیم میں
با وفاؤں کا ادارہ تھا کبھی
کشتیاں سوچیں گی دریا پار کر
اس کنارے کا کنارا تھا کبھی
لوٹ کر آئیں ہیں صادقؔ ہم جہاں
اپنا بھی اک گوشوارہ تھا کبھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.