چلا گیا کب کا جانے والا مری نگاہوں میں آب لکھ کر
چلا گیا کب کا جانے والا مری نگاہوں میں آب لکھ کر
میں سوچتا ہوں کبھی کبھی یہ گئے دنوں کا حساب لکھ کر
کبھی تھا جس سے لگاؤ مجھ کو کروں گا رسوا میں کیسے اس کو
شراب لکھ کر عذاب لکھ کر جواب لکھ کر خراب لکھ کر
زمانے بھر کی نگاہ میں تو میں ہو گیا تھا تبھی سے باغی
کیا تھا سجدہ خدا کو میں نے ترے لبوں کو گلاب لکھ کر
پھر اس کے دامن پہ کوئی انگلی اٹھے مجھے کیا قبول ہوگا
میں داغ اس پر لگا دوں کیسے بھلا اسے ماہتاب لکھ کر
غزل ترنم سے گر سجی ہے تو شاعری میں بھی ہو صداقت
وہ دے رہا ہے ادب کو دھوکا چراغ کو آفتاب لکھ کر
نہ ایسے حسرت نہ یہ طلب ہے نہ یہ دماغی فتور دیپکؔ
کہ چھو لوں شہرت کی میں بلندی غزل کی کوئی کتاب لکھ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.