درخت شام کے سائے سمٹنے لگ گئے ہیں
درخت شام کے سائے سمٹنے لگ گئے ہیں
مسافروں کے قدم پھر پلٹنے لگ گئے ہیں
یہ دفعتاً ہمیں کس کا خیال آیا ہے
جو اپنے آپ ہی سے ہم لپٹنے لگ گئے ہیں
کبھی یہ لوگ مہاجر تھے اس قبیلہ کے
جو آج اپنے قبیلوں میں بٹنے لگ گئے ہیں
نہ تھی امید کسی رابطے کی جن سے کوئی
ہمارے رابطے ان سے بھی کٹنے لگ گئے ہیں
مجھے یقیں ہے کوئی چاند آنے والا ہے
ستارہ آپ ہی رستے سے ہٹنے لگ گئے ہیں
پگھل گیا ہے کسی غم کی دھوپ کا ٹکڑا
یہ میری آنکھوں سے جو ابر چھٹنے لگ گئے ہیں
- کتاب : آوازوں کا روشن دان (Pg. 131)
- Author : کلدیپ کمار
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.