درد ایسا ہے کہ ہر موئے بدن کانپتا ہے
درد ایسا ہے کہ ہر موئے بدن کانپتا ہے
آہ بھرتا ہوں تو آہوئے ختن کانپتا ہے
کیوں زمیں تیری نہیں ہوتی نمو آمادہ
قحط سالی سے یہاں فرد وطن کانپتا ہے
دست آموز پرندوں نے بھی ہجرت کر لی
برق ایسی ہے کہ ہر مرغ چمن کانپتا ہے
کوئی تصویر کے پردے سے بلاتا ہے مجھے
پاس جاؤں تو وہ شہ پارۂ فن کانپتا ہے
چپ کی دیوار گرا دوں نہ تخاطب سے کہیں
ضبط گفتار سے اب میرا دہن کانپتا ہے
چاہ کنعاں سے نکل آیا ہوں یوسف کی طرح
کیوں زلیخا کا مگر چاہ ذقن کانپتا ہے
اپنا اسلوب زمانے سے جدا ہے شاید
شعر سنتا ہے تو ہر صاحب فن کانپتا ہے
گرچہ کھولا بھی نہیں تو نے ابھی باب سخن
کیا قیامت ہے مظفرؔ کہ دکن کانپتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.