درد ہے پتھروں کے سینوں میں
درد ہے پتھروں کے سینوں میں
پڑ گئے بال آبگینوں میں
جیب والے بھی کتنے ناداں ہیں
سانپ رکھتے ہیں آستینوں میں
میری تتلی نواز فطرت نے
گل کھلایا ہے نازنینوں میں
آسماں مرہمی سلوک کرے
زخم اگنے لگے زمینوں میں
شعلے بھڑکے ہیں خون برسے ہیں
سبز برسات کے مہینوں میں
اپنی پہچان اک پہیلی تھی
میں بھی شامل تھا بے یقینوں میں
چھوڑ جائیں گے تالیوں کے عوض
کچھ کرشمے تماش بینوں میں
جسم سائے میں خشک کرنے کو
مدتوں تر ہوئے پسینوں میں
خواہشوں کی بغاوتیں مت پوچھ
زندگی قید ہے مشینوں میں
گھر میں تیرہ شبی کا ماتم ہے
میں درخشاں ہوں ہم نشینوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.