دریائے محبت میں اتر کر نہیں آتے
دریائے محبت میں اتر کر نہیں آتے
لگتا ہے انہیں عشق کے تیور نہیں آتے
جو لوگ مرے قد کے برابر نہیں آتے
وہ لوگ مرے سامنے اکثر نہیں آتے
کر دیتے ہیں وہ لفظوں سے ہی خون تمنا
لے کر وہ کبھی ہاتھ میں خنجر نہیں آتے
کلیوں پہ اداسی ہے تو پھولوں میں ہے آتش
گلشن میں نظر پہلے سے منظر نہیں آتے
یہ جرم محبت کی سزا ہے مجھے ورنہ
قسمت میں مری درد کے لشکر نہیں آتے
ہاتھوں پہ اگر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے
ایسے میں نتیجہ کبھی بہتر نہیں آتے
اک بار ہمیں دیکھ کے رخ پھیر لیا تھا
اب ان کی گلی سے بھی گزر کر نہیں آتے
تکتے تھے جھروکھوں سے مری راہ کبھی جو
اب میرے گزرنے پہ وہ باہر نہیں آتے
دنیا کو بدل دینے کا کرتے ہیں وہ دعویٰ
جو لوگ گھروں سے کبھی باہر نہیں آتے
وہ پوچھتے رہتے ہیں محبت کے سوالات
اک ہم ہیں کہ ہم سے کوئی اتر نہیں آتے
یہ دور ہے تکنیک کا اس دور میں شعیبؔ
لڑنے کے لیے سامنے لشکر نہیں آتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.