دل بھی اوروں کو قریب رگ جاں چاہتا ہے
دل بھی اوروں کو قریب رگ جاں چاہتا ہے
تو بھی پہلے کی طرح مجھ کو کہاں چاہتا ہے
برسر تیغ ستم ہم نے ہی اعلان کیا
سر وہی سر ہے جو بس نوک سناں چاہتا ہے
ہم نہیں ہیں تجھے سینے سے لگانے پہ بضد
بس رگوں کا یہ لہو سیل رواں چاہتا ہے
دل کو پہلے سے بھی آسیب سا کچھ رہتا تھا
پھر سے جلوؤں کا ترے برق تپاں چاہتا ہے
میں کہ مدھم کیے بیٹھا ہوں سبھی داغ جگر
اور تو آتش وحشت کا دھواں چاہتا ہے
اب بہت دشت نوردی ہوئی آصفؔ صاحب
اب بدن موت کی آواز پہ ہاں چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.