دل پکارا ترا احساں ستم آرا ہوتا
تھا جہاں درد وہیں تیر بھی مارا ہوتا
کچھ نہ کچھ تو مجھے مرنے کا سہارا ہوتا
ہاتھ اچھا سہی دل پر مرے مارا ہوتا
پھر مخاطب کیا تم نے مجھے الٹی ہی نقاب
غش مجھے آتا جو پہلا سا نظارا ہوتا
روح بھی تن سے نکلتی تو یہ دل میں رہتا
آپ کا تیر مجھے جان سے پیارا ہوتا
بچ گیا مضحکہ ہوتا دم محشر کیسا
آپ کے دھوکے میں یوسف کو پکارا ہوتا
پھر مجھے کوئی زمانہ میں ستاتا نا حسیں
گرچہ ماتھے پہ رقم نام تمہارا ہوتا
فخر ہو جاتا مجھے بات مری رہ جاتی
بزم عشاق میں مجھ سے جو اشارا ہوتا
فصل گرمی کی ہے جی چاہتا ہے اے ساقی
مے کشی ہوتی جو دریا کا کنارا ہوتا
تو اگر تیر لگاتا مری پیشانی پر
حشر تک وہ مری قسمت کا ستارا ہوتا
یہ تو بتلاؤ جو ہوتی یہ کسی اور کی بزم
یوں بگڑ جاتے اگر ذکر ہمارا ہوتا
کسی مجمع میں اگر قتل وہ کرتا ہم کو
نام جلاد کا اور کام ہمارا ہوتا
میں تو مجبور تھا احباب سے یہ کہتا کون
وہ بھی آ لیتے تو تربت میں اتارا ہوتا
درد دل نے مری اس وقت اعانت کی ہے
یہ نہ اٹھتا تو وہ پہلو سے سدھارا ہوتا
میں سمجھتا ہوں کہ آنہ ہے مسیحا کا محال
چارہ گر ہنستے جو آنے کا سہارا ہوتا
ناصحا تو ہی سمجھ جوش جوانی میں بھلا
دل کا مرنا ہمیں کس طرح گوارا ہوتا
خیر اب تھوڑی سی پڑھ لیتے شفیقؔ اردو ہم
زندگی کا ہمیں گر اپنی سہارا ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.