دن گزرتا ہے تلاش یار میں
دن گزرتا ہے تلاش یار میں
کٹتی ہے شب حسرت دیدار میں
جنس دل ہے پاس تو گاہک بہت
کوئی آ ہی جائے گا بازار میں
کس کے نقش پا کے یا رب ہے نشاں
گل کھلے ہیں کوچہ اغیار میں
ہائے جذب عشق کی نیرنگیاں
حضرت یوسف بکے بازار میں
دیکھنے کو حال کب آئے ہیں آپ
حال جب باقی نہیں بازار میں
اب شباب آیا تو فرق آنے لگا
آپ کی گفتار میں رفتار میں
شہر میں ہوں کیا کمی معشوق کی
خوبرو ہیں سینکڑوں بازار میں
شوق سے بسمل رگڑتے ہیں گلا
کیا مزہ ہے آپ کی تلوار میں
ڈھونڈ ہے کس نے لکھا یہ حال دل
ایک کتبہ ہے نیا دیوار میں
ہائے رے حالت امید و بیم کی
میری کشتی آج ہے منجدھار میں
ملنے کو ملتے ہیں لاکھوں آدمی
آدمیت ملتی ہے دو چار میں
دل فروشوں کی دو رویہ بھیڑ ہے
سیر کو نکلے ہیں وہ بازار میں
مان لو میری خدا کو مان کر
رات آخر ہو گئی تکرار میں
برگ گل سمجھی ترے منہ کا اگال
اس کو بلبل لے اڑی منقار میں
کب بجھی اس سے مرے دل کی لگی
آب ہے تو ہو تری تلوار میں
دل کو بہلایا خیال یار سے
مشغلہ یہ تھا فراق یار میں
وہ بھی بد خو یہ بھی ہے نازک مزاج
ہو نہ کچھ جھگڑا دل و دل دار میں
لاکھ صحت اس پہ قرباں کیجیے
وہ مزہ ہے عشق کے بازار میں
خیر درباں تو وہاں جانے نہ دے
پڑ رہیں گے سایۂ دیوار میں
حسن اس پردہ نشیں کا ہے کچھ اور
یوں تو ہیں لاکھوں حسیں بازار میں
ہائے کب مقتل میں لائے ہیں مجھے
دم ہی جب باقی نہیں تلوار میں
پی بہت اب خوف بے کیفی کا ہے
ساقیا تھوڑی سی دے مقدار میں
اب وہ سمجھے گرمی خون شہید
جبکہ چھالے پڑ گئے تلوار میں
کب کسی کی بات سنتے ہیں خیالؔ
وہ تو بے خود ہیں خیال یار میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.