دوانے کو کوئی دوانا ملا ہے
کہ سب کہہ رہے ہیں خزانا ملا ہے
دھدھکتی پہر میں چلائے ہیں جب ہل
تبھی آپ لوگوں کو کھانا ملا ہے
کسانوں کی محنت کو کیا جانو تم لوگ
بنا کچھ کئے تم کو دانہ ملا ہے
پسینے کی روٹی نہیں جانتے ہیں
نوابوں کا جن کو گھرانا ملا ہے
اسے کیا ضرورت بھلا نوکری کی
وراثت میں جس کو خزانا ملا ہے
سفر میں مسلسل گزارے ہیں دن تب
ہمیں آج منظر سہانا ملا ہے
تری چال بازی نہ چل پائے گی اب
تجھے ہم سفر اب سیانا ملا ہے
نیا کچھ تلاشو نہ کمرے میں میرے
مجھے حصہ میں گھر پرانا ملا ہے
کئے تھے کسی نے کئی وعدے جس میں
ہمیں آج خط وہ پرانا ملا ہے
کریں کیوں نشیمن چراغوں سے روشن
جب اندھوں کا ہم کو گھرانا ملا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.