دیا جلتا نہ تھا تو شام بھی ہوتی نہیں تھی
دیا جلتا نہ تھا تو شام بھی ہوتی نہیں تھی
وہی رہتی تھی خاموشی نئی ہوتی نہیں تھی
اچانک مصرعۂ جاں سے بر آمد ہونے والے
کہاں ہوتا تھا تو جب شاعری ہوتی نہیں تھی
ہم ایسی روشنی میں رہ چکے ہیں جو سرا سر
تمہاری ہوتی تھی پر تم نے کی ہوتی نہیں تھی
کہو تو گفتگو سناؤں تم کو ان دنوں کی
ہمارے درمیاں جب بات بھی ہوتی نہیں تھی
ہنسی ہوتی تھی پر کرنے کو گریے کی جگہ بھی
ہنسی ہوتی تھی یا شاید ہنسی ہوتی نہیں تھی
دکھانا پڑتا تھا شعلہ اسے جب تو نہیں تھا
دیے کو دیکھنے سے روشنی ہوتی نہیں تھی
گھروں سے ہو کے آتے جاتے تھے ہم اپنے گھر میں
گلی کا پوچھتے کیا ہو گلی ہوتی نہیں تھی
- کتاب : شام کے بعد کچھ نہیں (Pg. 32)
- Author :شاہین عباس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.