دنیا نے جب بھی راہ میں کانٹے بچھائے ہیں
دنیا نے جب بھی راہ میں کانٹے بچھائے ہیں
کانٹوں پہ چلنے والے بہت یاد آئے ہیں
نادیدہ عکس دل زدگاں کو دکھائے ہیں
آئینے ٹوٹ کر بھی بہت کام آئے ہیں
چھلکی کہیں شراب کہیں غنچے کھل گئے
کیا کیا تری نگاہ نے جادو جگائے ہیں
آداب زیست کرنے کے غنچوں سے سیکھئے
موسم کے زخم کھائے مگر مسکرائے ہیں
لو دے رہی تھی جن کی تمنا حیات میں
اب کے وہی چراغ ہوا نے بجھائے ہیں
اک بار وہ نگاہ اٹھی پھر تمام عمر
ہم اپنی خواہشوں کے لہو میں نہائے ہیں
تاریخ کو بتائے گا کل کون پھر سراجؔ
یہ دیپ خود بجھے کہ ہوا نے بجھائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.