دشمن پہ رکھ کے دیتے ہو گالی عتاب میں
دشمن پہ رکھ کے دیتے ہو گالی عتاب میں
ہے ہر سخن زباں پہ تمہاری حجاب میں
بحر جہاں میں زیست نہ ہو کیوں حباب وار
نقطوں ہی کا ہے فرق حیات و حباب میں
آنکھیں یہ عاشقوں کی ہیں تجھ پر لگی ہوئیں
چھاپے نہیں ہیں یہ گل نرگس نقاب میں
ہم آبخورۂ خم مے کی طرح عسس
ڈوبے رہیں مدام گلے تک شراب میں
بعد فنا بھی شاہسوار سمند ناز
حاضر ہیں مثل ریگ رواں ہم رکاب میں
دوزخ نصیب مردم آبی کو ہو ابھی
ٹپکے جو اشک گرم کوئی اپنا آب میں
ہر دم روا روی میں ہے یہ توسن حباب
ہر وقت اپنا پاؤں ہے گویا رکاب میں
دریا کا نام شور سے منسوب ہو گیا
دھویا جو تم نے لعل نمک سا کو آب میں
صابرؔ فقط سخن میں ہے اب لطف عاشقی
ہر بات کا مزہ تھا شروع شباب میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.