دور سے دیکھا جو اپنا گھر کھلا
دور سے دیکھا جو اپنا گھر کھلا
وسوسوں کا ذہن میں دفتر کھلا
خواب کا امکان لا محدود ہے
یہ تو مجھ پر رات بھر سو کر کھلا
دو دریچے ہو گئے باہر کے بند
ایک دروازہ مرے اندر کھلا
تہ بہ تہ دیکھے زمانوں کے نشاں
یوں ہمارے سامنے پتھر کھلا
پھر قیاس آرائیاں ہونے لگیں
پھر کسی منظر کا پس منظر کھلا
اب وہاں درخواست دینی چاہیئے
رات دن رہتا ہے جو دفتر کھلا
زخم لگ جائے گا عاصمؔ جسم پر
جیب میں کیوں رکھ لیا خنجر کھلا
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 60)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.