ایک کیف سرمدی سے کھیلتا رہتا رہوں میں
ایک کیف سرمدی سے کھیلتا رہتا رہوں میں
بندگی میں بندگی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
رات دن زندہ دلی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
رنج و غم میں بھی خوشی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
آج کل اختر شماروں میں ہے میرا بھی شمار
رات میں بھی روشنی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
موت میں ہی زندگی ہے مثل پروانہ مری
شمع کی تابندگی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
طوق گردن سے ملا ذوق گرانباری مجھے
لیکن اس محنت کشی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
بندۂ مزدور کی عزت بچانے کے لیے
عز و جاہ قیصری سے کھیلتا رہتا ہوں میں
بار خاطر بن گئی گو یار شاطر کی بساط
لیکن اس پر سادگی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
اللہ اللہ میرا شوق جذب کامل دیکھنا
فکر وحدت میں دوئی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
وہ مرے ایوان غم میں زینت گلدستہ ہے
پھول کی افسردگی سے کھیلتا رہتا ہوں میں
وہ یہ کہتے ہیں کہ فرصت میں بہل جاتا ہے دل
اپنے احسن کاظمیؔ سے کھیلتا رہتا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.