گاؤں کے اک چھوٹے سے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
گاؤں کے اک چھوٹے سے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
لیکن اس کی یاد کا پودا برسوں تک شاداب رہا
اے مرے حال کی دشمن یادو کیا اس کو تسکین ملی
ماضی میں جو شخص حریف تسکین اعصاب رہا
اپنی ساری گم شدہ بھیڑیں جمع تو کیں چرواہے نے
ان بھیڑوں کے پیچھے پیچھے پورے دن بیتابؔ رہا
فصل خزاں کی شاخ سے لپٹا بیلے کا اک تنہا پھول
کچھ کلیوں کی یاد سمیٹے راتوں کو بے خواب رہا
بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اس سے بچھڑ کر دور چلے تو کوسوں تک سیلاب رہا
پچھلی رات کے پیاسے لمحے جن گلیوں میں بیت گئے
ان گلیوں کو چھوڑ کے پورے شہر میں قحط آب رہا
جسم نے اپنی عمر گزاری سندھ کے ریگستانوں میں
دل کم بخت بڑا ضدی تھا آخر تک پنجاب رہا
اس کی فطرت جاننے والے ترک ادب سے جیت گئے
کتنا تنگ نظر تھا طالبؔ پابند آداب رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.