گئی رتوں کے ہمارے ذمہ یہ کیسے کیسے حساب نکلے
گئی رتوں کے ہمارے ذمہ یہ کیسے کیسے حساب نکلے
شجر وفاؤں کے ہم نے بوئے کدورتوں کے عذاب نکلے
یہ کیسی صحرا سی زندگی ہے یہ پیاس کیسی ہے چاہتوں کی
پلٹ کے دیکھا تو ہر قدم پر محبتوں کے سراب نکلے
بس اک نظر میں متاع ہستی میں اس کے قدموں پہ وار دوں گی
کبھی شب غم کی خامشی میں اگر مرا ماہتاب نکلے
سنی تھیں چہروں کی داستانیں مگر نقابوں کی زد میں دیکھا
کسی کا مفہوم پڑھ سکوں میں کوئی تو چہرہ کتاب نکلے
نسیمؔ سچ ہے یہ زندگی تو طویل کانٹوں کی رہگزر ہے
رضاؔ کا پیکر بنوں خدایا جو زندگی کا جواب نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.