غم ہوں کتنے ہی مگر لب پہ تبسم رکھیے
غم ہوں کتنے ہی مگر لب پہ تبسم رکھیے
زندگی خود ہے غزل اس میں ترنم رکھیے
حال دل خود ہی کہا جائے تو کیا بات رہی
رہ کے خاموش بھی انداز تکلم رکھیے
بزم حیرت ہے جہاں دیکھیے رونق اس کی
مثل آئینہ مگر چہرے کو گم صم رکھیے
بزم رنداں میں بھی آداب رہیں پیش نظر
سامنے شوق سے پھر جام ہی کیا خم رکھیے
فکر و احساس کی دوری سے بکھرتا ہے وجود
قلب اور ذہن میں کیوں کوئی تصادم رکھیے
زندگی کاوش پیہم کے سوا کچھ بھی نہیں
ہو کے غرقاب بھی موجوں میں تلاطم رکھیے
کیجئے دشت نوردی تو عبادت کی طرح
خاک پیما ہیں تو احساس تیمم رکھیے
رخ پہ ابھرے نہ شکن موج حوادث سے کبھی
دل کی گہرائی میں بھی وسعت قلزم رکھیے
ٹوٹے جب شیشۂ دل آئے نہ باہر آواز
گونج میں نغمۂ محفل کی اسے غم رکھیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.