ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے
آئے نہ بہار آخر شاید نہ بہار آئے
رنگ ان کے تلون کا چھایا رہا محفل پر
کچھ سینہ فگار اٹھے کچھ سینہ فگار آئے
فطرت ہی محبت کی دنیا سے نرالی ہے
ہو درد سوا جتنا اتنا ہی قرار آئے
کیا حسن طبیعت ہے کیا عشق کی زینت ہے
دل مٹ کے قرار آئے رنگ اڑ کے نکھار آئے
در سے ترے ٹکرایا اک نعرۂ مستانہ
بے نام لیے تیرا ہم تجھ کو پکار آئے
تصویر بنی دیکھی اک جان تمنا کی
آنسو مری آنکھوں میں کیا سلسلہ وار آئے
کچھ ان سے نہ کہنا ہی تھی فتح محبت کی
جیتی ہوئی بازی کو ہم جان کے ہار آئے
اس درجہ وہ پیارے ہیں کہتے ہی نہیں بنتا
کیا اور کہا جائے جب اور بھی پیار آئے
اس بزم میں ہم آخر پہنچے بھی تو کیا پایا
دل ہی کی دبی چوٹیں کچھ اور ابھار آئے
Videos
This video is playing from YouTube
ارم لکھنوی
نامعلوم
اقبال بانو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.