ہم نے تنکے سے تو ساحل پہ اتر جانا ہے
ہم نے تنکے سے تو ساحل پہ اتر جانا ہے
اس سے آگے نہیں معلوم کدھر جانا ہے
جو گیا محفل یاراں سے گیا یہ کہہ کر
دل تو کرتا نہیں جانے کو مگر جانا ہے
ہم نے اس کا ہی کہا یاد دلانا ہے اسے
اس نے کچھ بات بنانی ہے مکر جانا ہے
کیا بتاؤں کہ مسافت ہے کہاں کی میری
جس طرف سمت نہیں کوئی ادھر جانا ہے
آنکھ نے پھینکنے رہتے ہیں نظر کے کنکر
آئنہ ٹوٹنا ہے عکس بکھر جانا ہے
وقت ٹھہرا ہوا محسوس ہوا تیرے ساتھ
اور یہ ٹھہرا ہوا وقت گزر جانا ہے
یہ کہ لگتا ہی گیا بزم کی رعنائی میں
اور میں دل سے یہ کہتا رہا گھر جانا ہے
سانس ایک اور کسی دم کے لئے اور اک سانس
اس تگ و دو میں سبھی نے کبھی مر جانا ہے
اٹھ کے بیٹھک سے کھڑے ہو گئے دروازے پر
تم نے جانا ہے چلے جاؤ اگر جانا ہے
یہ نیا حسن پرانے سے زیادہ ہے مگر
اس نئے حسن سے بھی دل مرا بھر جانا ہے
ہم تو غافل ہیں سراسر ہمیں معلوم نہیں
کس طرف تم کو کہو اہل خبر جانا ہے
عشق تھک کر نہیں رکتا کبھی عاصمؔ اس نے
وسعت دشت میں تا حد نظر جانا ہے
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 100)
- Author : عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.