ہمارے خدشات کے دروں سے مہیب سائے نکل رہے ہیں
ہمارے خدشات کے دروں سے مہیب سائے نکل رہے ہیں
تمہارے وعدوں کے چاند لیکن چمک رہے ہیں نہ ڈھل رہے ہیں
عجیب تاریک روشنی ہے جو سارے منظر کو کھا رہی ہے
غلام ذہنوں کی ضد ہے لیکن کہ درد کے دن بدل رہے ہیں
بساط شاہی پہ ان پیادوں کی حیثیت ہی نہیں ہے کوئی
یہ جو بہت تلملا رہے ہیں جو قد سے بڑھ کے اچھل رہے ہیں
وہ جن کے ہاتھوں ہماری دستار تک سلامت نہیں رہی ہے
ستم تو یہ ہے انہی کی انگلی پکڑ کے ہم لوگ چل رہے ہیں
تمہارے میرے تمام آنسو جو وقت کی دھول پر گرے تھے
ہمارے بچوں تک آن پہنچے ہیں ان کی آنکھوں میں جل رہے ہیں
ہماری آنکھیں پہاڑ کے دوسری طرف دیکھتی ہیں انورؔ
ہمارے دیرینہ خواب تعبیر دیکھنے کو مچل رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.