ہنسی لبوں پہ ہے دل میں شگفتگی تو نہیں
یہ اک لطیف سا دھوکہ ہے زندگی تو نہیں
سمجھ رہا ہوں کہ اپنا بنا لیا ہے انہیں
اسی کا نام محبت کی سادگی تو نہیں
لگا رہا ہوں لبوں کی ہنسی سے اندازہ
کہ میرے غم کی طلب میں کوئی کمی تو نہیں
نفس نفس پہ یہ ہوتا ہے کیوں مجھے محسوس
حیات تجھ سے الگ رہ کے خود کشی تو نہیں
مرے قریب سے بیگانہ وار گزرا ہے
میں اجنبی اسے سمجھوں وہ اجنبی تو نہیں
یہ کس لیے مری آنکھوں میں آ گئے آنسو
خیال خاطر احباب میں کمی تو نہیں
یہ کس خوشی میں مناتے ہیں جشن اہل چمن
کلی کا خون ہوا ہے کلی ہنسی تو نہیں
نفس نفس میں ہے مانوس نکہتوں کا خرام
چھپا ہوا کوئی میرے قریب ہی تو نہیں
سمجھ رہا ہوں جسے برق کی چمک شاعرؔ
کہیں وہ میرے نشیمن کی روشنی تو نہیں
Videos
This video is playing from YouTube
شاعر لکھنوی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.