ہر نام ہر انداز ستم آم نہیں ہے
لیں لطف ستم سب کا تو یہ کام نہیں ہے
اس بزم میں انعام جفا آم نہیں ہے
وہ قدر فزائے ہوس خام نہیں ہے
ہے نام کی رٹ اور کوئی کام نہیں ہے
یہ ذوق طلب کیا طلب خام نہیں ہے
ساقی نہیں صہبا نہیں یا جام نہیں ہے
پیاسوں کو ہی فکر مع گلفام نہیں ہے
صیاد نہیں ہے کہ یہاں دام نہیں ہے
ہاں شہرت بیداد چمن آم نہیں ہے
یہ حسن جفا اور کا یہ کام نہیں ہے
ہر وقت ستم پھر بھی وہ بدنام نہیں ہے
خالی مرے حصے کے سوا جام نہیں ہے
ساقی کا گلا پھر بھی مرا کام نہیں ہے
مے خانہ کھلے پیر مغاں اذن بھی دے دے
بیتاب مگر رند مے آشام نہیں ہے
جو سامنے لے آئے جمال رخ و کاکل
کیوں اب وہ ہماری سحر و شام نہیں ہے
سن کر جسے کونین کا غم تم نے بھلایا
اب جیسے ان آنکھوں میں وہ پیغام نہیں ہے
زاہد کی عبادت پہ بھی اب اوس پڑی ہے
جز سجدۂ بے ذوق کچھ اقدام نہیں ہے
بدلے ہوئے حالات ہیں ہم خود بھی بدل جائیں
یہ بندگیٔ گردش ایام نہیں ہے
صیاد بنا دے جو اسے رشک چمن بھی
آرام قفس کا کوئی آرام نہیں ہے
اک صبح مسلسل کا تصور ہے مجھے بھی
سنتا ہوں کہ پھر اس کی کوئی شام نہیں ہے
پھر کیوں وہی تکرار تعدی و تسلی
انداز میں کچھ آپ کے ابہام نہیں ہے
لیں عہد وفا کیوں نہ کشش پر ہے بھروسا
یہ رسم تعلق تو خوش انجام نہیں ہے
عارفؔ ابھی صیاد کو بے چین کئے ہے
جو مرغ چمن اب بھی تہ دام نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.