ہر نفس جلتا چلا جائے پگھلتا چلا جائے
ہر نفس جلتا چلا جائے پگھلتا چلا جائے
قافلہ دل کا تری اوٹ میں چلتا چلا جائے
روشنی پیش نظر ہو مگر اتنی بھی نہ ہو
آدمی آگ کے سانچے میں ہی ڈھلتا چلا جائے
زخم تنہائی برا یوں بھی نہیں ہے لیکن
اور اچھا ہے اگر پھولتا پھلتا چلا جائے
اب ذرا کار محبت سے مفر کوئی گھڑی
آخر اس موج میں کب تک کوئی چلتا چلا جائے
تری پلکوں کی منڈیروں سے اترتی ہوئی دھوپ
دن برابر مرے اندر کہیں ڈھلتا چلا جائے
زخم بھر جانے کو ہے اور یہ موڑ ایسا ہے
جہاں کردار کہانی سے نکلتا چلا جائے
دل کسی اور ٹھکانے کا دیا ہے شاہینؔ
یہ کسی اور زمانے میں نہ جلتا چلا جائے
- کتاب : شام کے بعد کچھ نہیں (Pg. 68)
- Author :شاہین عباس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.