ہر قدم پر نئے آزار ہوا کرتے ہیں
ہر قدم پر نئے آزار ہوا کرتے ہیں
مرحلے شوق کے دشوار ہوا کرتے ہیں
مرثیہ پڑھتا ہوں دل کا تو غزل بنتی ہے
میرے الفاظ عزادار ہوا کرتے ہیں
رقص بسمل کے مقدر میں ہے دشت و صحرا
اور مجرے سر بازار ہوا کرتے ہیں
وہ الگ دور تھا جب عشق پہ کچھ زور نہ تھا
اب کے عاشق بڑے ہشیار ہوا کرتے ہیں
مسند درس سخن پر بھی سخن فہم نہیں
صرف غالب کے طرفدار ہوا کرتے ہیں
حسن ظاہر کی حقیقت نہیں کھلتی جب تک
لوگ مرنے کو بھی تیار ہوا کرتے ہیں
مسکراتے ہوئے آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں
درد دل یار پراسرار ہوا کرتے ہیں
تم کہ بازار میں آتے ہو نمائش کے لیے
ہم نمائش کے خریدار ہوا کرتے ہیں
بات اس بات میں ہے جس سے کوئی بات بنے
یوں لطیفے بھی مزے دار ہوا کرتے ہیں
زندگی صفحۂ تقدیر کا افسانہ ہے
ہم حقیقت میں اداکار ہوا کرتے ہیں
آخری نان شبینہ کی طلب میں ناصرؔ
روز بازار میں ہم خوار ہوا کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.